لاپتہ افراد کیس: وقت آ گیا سب کو اپنے حق کے لئے سینہ تان کر کھڑا ہونا پڑے گا: سپریم کورٹ
اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ میں مختلف لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کے دوران دو رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ سب کو اپنے حق کیلئے سینہ تان کر کھڑا ہونا پڑے گا، اب غلط چیزیں نہیں ہونے دینگے، چند کالی بھیڑیں فوج کو بدنام کرنے میں مصروف ہیں، کوئی قانون سے بالاتر نہیں جو خود کو بالاتر سمجھتے ہیں آہستہ آہستہ انہیں سب سمجھ میں آجائے گا، بلوچستان کے حوالے سے بہت سی چیزیں ہمارے سامنے آئی ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کر سکتے، ہمارا کوئی ذاتی اختیار نہیں، ہمیں اختیار آئین و قانون اور انصاف کے تقاضوں نے دے رکھا ہے ورنہ ہم ایک ”ککھ“ توڑنے کا بھی آرڈر نہیں دے سکتے۔ انہوں نے یہ ریمارکس راولپنڈی سے لاپتہ تاسف علی، چکوال سے لاپتہ افراد عمر حیات، عمر بخت، غلام سجاد احمد، نور بی بی اور دیگر مقدمات کی سماعت کے دوران دئیے۔ عدالت نے چکوال کے دو بھائیوں عمر حیات اور عمر بخت کی بازیابی کے لئے پولیس کو ایک ہفتے کا وقت دیا ہے۔ فاضل جج نے کہا کہ مسلح افواج نے حلف لے رکھا ہے وہ اس سے باہر نہیں جا سکتے باپ ایڑیاں رگڑتے رگڑتے مر گیا اب ماں بھی جانے والی ہے کیا فوجیوں اور اداروں کے سربراہوں کے دل نہیں جو ایک ماں کو اس کے بیٹے سے ملوا دیں۔ ہمیں معلوم ہے اس ملک میں کیا نہیں ہو رہا لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو متعلقہ اعلیٰ حکام کیخلاف مقدمات درج ہوں گے اب کوئی آئین و قانون سے باہر نہیں جائے گا۔ آئین و قانون کی حکمرانی سے امن، استحکام اور سلامتی وابستہ ہے۔ ماضی میں جس نے غلطیاں کیں اب ان کے مداوا کرنے کا وقت ہے خدارا اب سب قانون کے مطابق ہی کام کریں فوج ملکی سلامتی کے لئے جہاں کام کر رہی ہے وہاں لوگوں کے حقوق کا بھی خیال رکھے ہمیں فوج سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ ڈی پی او ارسلان اور دیگر پولیس حکام نے عدالت کو بتایا کہ سب اسسٹنٹ انسپکٹر بشیر احمد کیخلاف کارروائی کی جا رہی ہے وہ ضمانت پر ہیں۔ ملک عامر نے عدالت کو بتایا کہ سارے معاملے میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر بشیر ملوث ہیں انہوں نے ہی یہ سب کام کیا ہے۔ ایس ایچ او نے عدالت کو بتایا کہ اس حوالے سے راجہ عامر کا بیان حقیقت پر مبنی ہے۔ نوجوانوں کے والد نے بتایا کہ ابھی تک انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ عدالت نے لاپتہ نوجوانوں کو پانچ جون تک بازیاب کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔ عدالت کو مقرب خان کیس کی سماعت کے دوران وزارت دفاع کی جانب سے بتایا گیا کہ ذاکر اللہ، فصیح اللہ اور رشید گل ایم آئی کے لکی مروت کے حراستی مرکز میں ہیں عدالت نے ان سے ماں کی ملاقات کیلئے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت جاری کی عدالت نے نور بی بی کیس کی سماعت گیارہ جون تک ملتوی کرتے ہوئے ڈی اے جی علی زئی کو ہدایت کی کہ وہ بریگیڈیئر (ر) صدیق خان کے حوالے سے تفصیلات معلوم کر کے عدالت کو بتائیں عدالت نے لکی مروت میں زیر حراست افراد کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ بھی ڈی اے جی سے طلب کی۔ عدالت نے افسوس ظاہر کیا کہ عام لوگوں کو ان کے عزیزوں سے ملاقات کرانے کیلئے کچھ نہیں کہا جا رہا، اس حوالے سے چند لوگ پوری فوج کو بدنام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عابدہ کی درخواست کی سماعت کے دوران ان کے سسر نے عدالت کو بتایا کہ سات جنوری 2013ءکو ان کی میجر حیدر سے میرپور ایم آئی آفس میں ملاقات ہوئی تھی، انہوں نے لاپتہ فرد کی واپسی کی یقین دہانی کرائی تھی مگر انہوں نے وعدہ پورا نہیں کیا اب فون بھی اٹینڈ نہیں کر رہے، اگر وہ سامنے آجائیں تو وہ پہچان لیں گے، عدالت نے ڈی اے جی علی زئی کو ہدایت کی کہ وہ وزارت دفاع کے اس حوالے سے معلوم کر کے عدالت کو رپورٹ دیں۔