سندھ میں حکومت سازی کا عمل شروع
الیکشن 2013ءکے بعد آزاد آراکین اور مختلف جماعتوں کے قائدین کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا سلسلہ جاری ہے سابق وزیراعظم اور ممتاز سیاستدان میر ظفر اللہ خان جمالی نے اور سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے بھی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی ہے اس کے علاوہ (ن) لیگ نے واضح اکثریت حاصل کرنے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف نے مفاہمتی پالیسی اختیار کرتے ہوئے فنکشنل لیگ کو بھی وفاقی حکومت میں شمولیت کی دعوت دی ہے اس سلسلے میں گزشتہ دنوں شہباز شریف نے کراچی میں فنکشنل لیگ کے سربراہ پیرپگاڑا سے ملاقات کر کے انہیں باضابطہ طور پر مسلم لیگ کی حکومت کا ساتھ دینے اور حکومت سازی کا حصہ بننے کی دعوت دی ہے پیر صاحب پگاڑا نے بھی انہیں اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ نئی حکومت کی تشکیل نو کا عمل مکمل ہونے کی طرف جا رہا ہے نو منتخب اسمبلی کا اجلاس یکم جون کو طلب کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے یکم جون کو تمام اراکین قومی اسمبلی سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سے رکنیت کا حلف لیںگے۔ میاں نوازشریف کو حکومت سازی کے دوران کچھ مشکلات کا تو سامنا کرنا پڑے گا وہ جس مفاہمتی پالیسی کے تحت حکومت سازی کرنا چاہتے ہیں اس میں انہیں آزاد اراکین اور جو جماعتیں ن لیگ میں شمولیت اختیار کرتی جا رہی ہیں انہیں بھی وزارتوں میں سے حصہ ضرور دینا پڑے گا اور وزارتوں کی تقسیم کے دوران میاں نوازشریف کو اپنے پرانے مسلم لیگی دوستوں کی شائد ناراضگی مول لینی پڑے بہرحال میاں نوازشریف ایک بردبار اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور ملک کے تیسرے وزیراعظم بننے جا رہے ہیں وہ اپنی نرم پالیسیوں کے تحت وزارتوں کی تقسیم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مسلم لیگی حکومت کے لئے یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ سکھر کے حلقہ 199 سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی اور پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر بننے والے سید خورشید احمد شاہ کا کہنا ہے کہ سوالیہ نشانات کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی (ن) لیگ کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتی ہے اور قومی مفادات کی خاطر (ن) لیگ کی حمایت کرتے رہیں گے۔ سید خورشید احمد شاہ نے سوالیہ انداز میں کہہ دیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی سندھ میں کلین سوئپ کرتی ہے جبکہ باقی دیگر صوبوں میں ہار جاتی ہے۔ سید خورشید احمد شاہ کے اس بیان سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شائد جان بوجھ کر دیگر صوبوں میں پاکستان پیپلزپارٹی کو ہرایا گیا ہے۔ بہرحال الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کو کئی جماعتیں لگا رہی ہیں کئی پولنگ سٹیشنوں پر ری پولنگ اور کئی حلقوں میں دوبارہ گنتی کرائی گئی دوبارہ گنتی کے دوران کئی حلقوں کے نتائج یکسر تبدیل ہوتے اور ہارنے والا امیدوار دوبارہ گنتی کے بعد جیت گیا۔ یکم جون کو قومی اسمبلی کے اراکین کا حلف اٹھانے کے بعد حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ کو مضبوط اپوزیشن کا سامنا تو نہیں کرنا پڑے گا مگر جمہوری سیاست میں مفاہمت کے حوالے سے ایک اور چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا وہ چیلنج ہے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا جس سے صدر مملکت کو خطاب کرنا ہوتا ہے نئی اسمبلی پر حلف اٹھانے کے بعد آئین کے آرٹیکل 56 کی شق 3 کے تحت یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائے اور اس اجلاس سے صدر مملکت کو خطاب کرنا ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین کی اس شق کی رو سے پارلیمنٹ کا اجلاس بلانا آنے والی حکومت کے لئے ضروری ہوتا ہے دیکھنا یہ ہے کہ حکمران جماعت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلاتی ہے یا نہیں اگر حکمران جماعت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے میں لیت و لعل سے کام لیتی ہے تو اس سے اس کی جمہوری سیاست میں مفاہمت کی پالیسی پر کاربند ہونے کے بارے میں کئی سوالات بھی اٹھ سکتے ہیں یہاں پر یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اسمبلی سے حلف اٹھانے کے بعد بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا جون میں نئی حکومت کو مالی سال 2013-14ءکا سالانہ بجٹ بھی پیش کرنا پڑے گا اور بجٹ کی تیاریوں کے لئے نئی حکومت کے پاس کچھ بھی وقت نہیں ہے۔ عوام کو نئی حکومت سے بہت سی امیدیں توقعات وابستہ ہیں اگر نئی حکومت نے مال سال 2013-14ءکے بجٹ میں عوام کی توقعات سے ہٹ کر بجٹ پیش کیا تو اس کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا مگر میاں نوازشریف کے پاس سرتاج عزیز‘ اسحاق ڈار جیسے سابق وزیر خزانہ بھی موجود ہیں جو شائد یہ نوبت نہ آنے دیں کہ عوام نئی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج بن جائے۔ خواتین کی مخصوص نشستوں کی تقسیم بھی شدید اختلافات کا شکار رہی فنکشنل لیگ نے این اے 198 سکھر سے امیدوار فنکشنل لیگ خواتین ونگ کی مرکزی رہنما میڈم خورشید افغان کو 10 جماعتی اتحاد بننے کے بعد قیادت نے انہیں خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب کرانے کا عندیہ دیا تھا مگر ان کی جگہ کسی اور کو رکن قومی اسمبلی نامزد کر دیا گیا جس پر سابق رکن اسمبلی اور سابق وفاق پارلیمانی سیکرٹری میڈم خورشید افغان آگ بگولا ہوگئیں اور انہوں نے ایک پریس کانفرنس کر ڈالی ا ور پاکستا مسلم لیگ فنکشنل سندھ کے جنرل سیکرٹری امتیاز شیخ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ امتیاز شیخ نے پارٹی کو یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے وہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے بجائے چیف سیکرٹری بنے ہوئے ہیں۔ سکھر سے خواتین کے لئے مخصوص نشست اقلیتی برادری کی ایتا ایشور کو دینے کا فیصلہ درست نہیں ہے جبکہ پاکستان فنکشنل لیگ کے جنرل سیکرٹری امتیاز شیخ نے میڈم خورشید افغان کی جانب سے انہیں تنقید کا نشانہ بنانے پر کہا کہ خورشید افغان کا بیان ان کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے۔ پیر پگاڑا نے ان کوکوئی عہدہ تفویض نہیں کیا ہے۔ سندھ میں حکومت سازی کا عمل شروع ہو چکا ہے پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ مل کر حکومت بنائیں گی اور منگل کی شام پاکستان پیپلزپارٹی کے مخدوم امین فہیم نے سندھ کے وزیراعلیٰ کے لئے سید قائم علی شاہ کو منتخب کرنے کا اعلان کر کے تمام افواہوں کو ختم کر دیا ہے۔ سید قائم علی شاہ کو بھی دوبارہ وزیراعلیٰ سندھ بننے کا اعزاز حاصل ہو جائے گا۔ پاکستانی قوم دعاگو ہے کہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل نو کا عمل باہمی رضا مندی سے حل ہو جائے اور ملک امن و سکون کا گہوارہ بن جائے۔