پاکستان مسلم لیگ اور آل انڈیا مسلم لیگ
پاکستان مسلم لیگ اور آل انڈیا مسلم لیگ
آل انڈیا مسلم لیگ کی طرح پاکستان مسلم لیگ بھی ناقابل تسخیر رہتی تو صرف یہی جماعت ہوتی۔ یہ پاکستان کی خالق جماعت ہوتی۔ میرا خیال ہے بلکہ یقین ہے کہ پاکستان مسلم لیگ کے علاوہ کوئی جماعت قائم نہ ہوتی اور نہ ٹھہر سکتی۔ نہ پیپلز پارٹی ہوتی نہ اے این پی کی کوئی حیثیت ہوتی، نہ جے یو آئی کی کوئی حقیقت ہوتی۔ ایم کیو ایم بھی نہ بنتی۔ مسلم لیگ کی شکست و ریخت کے بعد ہی یہ خوفناک سیاسی منظر نامہ سامنے آیا ہے کہ آج پاکستان میں کئی سیاسی جماعتیں ہیں، کئی پارٹیوں کو تانگہ پارٹی کہتے ہیں۔ کئی جماعتوں کی نمائندگی صرف پارٹی لیڈر اسمبلی میں کرتا ہے، جیسے 2002ءکے الیکشن میں عمران خان، طاہر القادری تھے۔ کئی جماعتوں کو کوئی نمائندگی نہیں ملتی۔ مولانا ساجد میر نواز شریف کی مہربانی سے سینٹ میں چلے جاتے ہیں اور اپنی پارٹی سے زیادہ مسلم لیگ ن کی ترجمانی کرتے ہیں۔
جب مسلم لیگ کے ٹکڑے ہوئے تو پاکستان کے بھی دو ٹکڑے ہو گئے۔ شیخ مجیب الرحمان تو مسلم لیگ میں تھے، حسین شہید سہروردی کے پیارے شاگرد تھے انہوں نے کیوں عوامی لیگ بنائی۔ عجیب ہولناک اتفاق ہُوا کہ 1964ءکے صدارتی انتخاب میں جنرل ایوب مسلم لیگ (کنونشن) کے امیدوار تھے اور مادرِ ملت بھی مسلم لیگ کی امیدوار تھیں۔ اگر جنرل ایوب کو یہ توفیق ملتی کہ وہ اپنی مسلم لیگ کو اصل مسلم لیگ میں ضم کر دیتے اور مادرِ ملت کے حق میں دستبردار ہو جاتے تو پاکستان میں ایک نیا زمانہ شروع ہوتا اور پاکستان مسلم لیگ وہی کردار ادا کرتی جو آل انڈیا مسلم لیگ نے کیا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ اور پاکستان مسلم لیگ کی صدر قائداعظم کی بہن مادرِ ملت ہوتیں اور مشرقی پاکستان بھی الگ نہ ہوتا۔ مغربی پاکستان میں دھاندلی ہوئی اور مشرقی پاکستان میں مادرِ ملت جیت گئیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے 1940ءمیں قراردادِ لاہور (پاکستان) منظور کرنے کے بعد صرف سات سال میں پاکستان بنا کے دکھا دیا۔ پاکستان مسلم لیگ نے ساٹھ سالوں میں کیا کِیا ہے؟ مسلم لیگ کو جرنیلوں کی ”لونڈی جماعت“ کہا جاتا ہے، یہ بہت افسوسناک ہے۔
جب بھی مسلم لیگ متحد ہوئی تو بڑے بہتر نتائج نکلے۔ اقتدار کے لئے ایک سیڑھی کے طور پر صرف مسلم لیگ کو استعمال ہی کیا گیا۔ کبھی اسے کونسل مسلم لیگ کہا گیا کبھی کنونشن مسلم لیگ کہا گیا۔ اس کے بعد شخصیات کے نام پر مسلم لیگ کو ذاتی جاگیر بنانے کی کوشش کی گئی۔ مسلم لیگ ج (جونیجو) مسلم لیگ ن (نواز)، جس مسلم لیگ کے صدر چوہدری شجاعت حسین ہیں اسے مسلم لیگ (ق) کہتے ہیں۔ پیر پگارا صاحب کی مسلم لیگ کوفنکشنل کہتے ہیں، شیخ رشید نے عوامی مسلم لیگ بنا لی۔ ایک پیپلز مسلم لیگ بھی ہے۔ ایک مسلم لیگ حقیقی ہے جس کے صدر نوید خان ہیں، اس سے ایم کیو ایم حقیقی کی یاد آتی ہے جس کے لئے الطاف حسین سے بغاوت کر کے آفاق احمد نے اپنی جماعت بنائی ہے۔ یہ مہاجر قومی موومنٹ ہے۔ الطاف حسین نے متحدہ قومی موومنٹ یعنی ایم کیو ایم کا نام رکھ لیا ہے مگر دونوں ایم کیو ایم ہیں۔
قائداعظم کی مسلم لیگ سے نظریاتی طور پر وابستہ آبروئے صحافت ڈاکٹر مجید نظامی نے ہمیشہ دل سے کوشش کی کہ مسلم لیگ متحد ہو، انہوں نے اس کے لئے کوشش بھی کی۔ بڑے پیر پگارا صاحب اور چوہدری شجاعت نے مجید نظامی سے اتفاق کیا۔ پیر پگارا نے غیر مشروط تعاون پیش کیا اب موجودہ پیر پگارا بھی مسلم لیگوں کے اتحاد کے لئے بے تاب ہیں۔ چوہدری شجاعت نے بھی مجید نظامی سے اتفاق کیا بلکہ انہوں نے نظامی صاحب کو متحدہ مسلم لیگ کا صدر بھی مان لیا مگر اس حوالے سے مجید نظامی نے خود بتایا کہ نواز شریف نے اتفاق نہ کیا تو اتحاد بھی نہیں ہوا۔ ان کا خیال ہے کہ تمام مسلم لیگیں میرے پاس آئیں گی۔ بہر حال نظامی صاحب کسی بھی سیاسی جماعت کا صدر بننے کو تیار نہیں۔
اب یہ موقع اللہ نے انہیں دیا ہے تو وہ دل بڑا کریں اور تمام مسلم لیگوں کو متحد کرنے کے لئے پہل کریں۔ جس طرح شہباز شریف کراچی میں پیر پگارا کے پاس چلے گئے ہیں اور خاطر خواہ نتیجہ نکلا ہے وہ ہمت کریں اور چوہدری شجاعت کے پاس بھی چلے جائیں تو پوری امید ہے کہ وہ انہیں مایوس نہیں کریں گے۔ ایوان صدر میں چینی وزیراعظم کے ظہرانے میں چوہدری شجاعت حسین نے آگے بڑھ کر نواز شریف کو مبارکباد دی، دونوں نے گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔ چوہدری پرویز الٰہی بھی چوہدری شجاعت کو کسی طور نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اعجازالحق اپنی مسلم لیگ ضیا (جنرل ضیا) کے واحد ممبر ہیں، وہ پہلے نواز شریف کے ساتھ تھے۔ چوہدری صاحبان بھی نواز شریف کے ساتھ تھے۔ شیخ رشید بھی جوش و خروش سے نواز شریف کے سپاہی تھے، وہ جب جنرل مشرف کے پاس گئے اور ق لیگ میں شامل ہوئے تو اس سے پہلے مجید نظامی کی معرفت اپنی دونوں سیٹیں نواز شریف کو پیش کرنا چاہی تھیں مگر نواز شریف رضامند نہ ہوئے۔ اب وہ ایک شاندار کامیابی کے بعد تیسری بار وزیراعظم بن رہے ہیں تو وہ دل کشادہ کریں تو کام بن سکتا ہے۔ مجید نظامی کے پاس بیٹھ کے معاملات طے ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے میری گزارش ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کو پاکستان مسلم لیگ کا نام دیا جائے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا نام بابائے قوم بانی¿ پاکستان قائداعظم کے نام پر نہ تھا تو پھر کسی اور کا نام اس حوالے سے استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ متحدہ مسلم لیگ بھی میرے خیال میں غیر اہم ہے۔ پاکستان مسلم لیگ زندہ باد۔ اب اس حوالے سے کوئی نواز شریف کی قیادت کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ ایسا سنہری موقع اس حوالے سے کبھی نہیں آئے گا۔ اس کا آغاز اس آدمی کی طرف سے ہونا چاہئے جس کو اللہ نے مقام دیا ہے۔