”پاکستان بھیج دو یا مار دو“ پاکستانی خاتون کی بھارتی حکومت سے اپیل
نئی دہلی (این این آئی) بھارتی اخبار دی ہندو نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتی شہری سے شادی کرنے والی پاکستانی خاتون نزہت جہاں نے بھارتی حکومت سے التجا کی ہے کہ اسے پاکستان واپس بھیج دیا جائے یا جان سے مار دیا جائے، اخبار نزہت جہاں اور اس کے خاندان کی دکھ بھری داستان بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ بھارتی شہری محمد گلفام سے شادی کرنے والی پاکستانی خاتون نزہت جہاں دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ دہلی میں تیس سال سے رہائش پذیر نزہت جہاں غیر قانونی شہری قرار دئیے جانے پر بھارت بدری کی منتظر ہے۔ 17 سال کی عمر میں شادی ہونے کے بعد نزہت پرانا دہلی کے سیتارام بازار میں اپنے خاوند کے ساتھ رہائش پذیر رہی۔ 2002ءمیں انہیں بھارتی حکام نے ویزا کی میعاد ختم ہونے پر گرفتار کر لیا۔ رواں ماہ کے اوائل میں دہلی کی ایک عدالت نے انہیں چھ دن کی قید اور جرمانے کی سزا کے ساتھ ملک بدری کا حکم دیا۔ قید کی سزا پوری ہونے کے بعد نزہت کو خواتین کے شیلٹر ہوم نرمل چھایا میں بھیج دیا گیا جہاں وہ اب مرکزی حکومت کے مزید احکامات کی منتظر ہے۔ نزہت کے خاوند نے کہا کہ ان کی بیوی کو اس ماہ کے اوائل میں زبردستی شیلٹر لے جایا گیا جہاں خاندانی افراد کو نزہت تک رسائی کی اجازت نہیں دی گئی۔ گلفام کا کہنا تھا کہ نرمل چھایا تہاڑ جیل سے بھی بدتر ہے ہم نے حکومت سے اپیل کی کہ ہماری قسمت کا فیصلہ جلد کرے۔ اب ایک ہی راستہ نظر آتا ہے کہ انہیں پاکستان بھیج دیا جائے تاہم بھارتی حکومت جو بھی فیصلہ کرنا چاہتی ہے وہ جلد کرے۔ اخبار کے مطابق نزہت کے ساتھ شادی کی تصاویر دکھاتے ہوئے گلفام کی آنکھو ں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک 47 یا 48 سال کی خاتون کو شیلٹر ہوم میں مت بھجیں۔ نزہت کے بیٹے نے کہا کہ میری ماں کو پاکستان بھیج دیا جائے ان کی پاکستان میں ضعیف والدہ اور بہن بھائی ہیں، انہوں نے کہا کہ آخری بار میرے والدین 1992ءمیں پاکستان گئے، میری والدہ نے پوری زندگی بھارت میں گزار دی، وہ پاکستانی سے زیادہ بھارتی ہیں۔