خیبر پی کے : سادہ اکثریت نہ ہونے کے باعث تحریک انصاف کو اتحادیوں کو ساتھ لیکر چلنا پڑے گا
پشاور (رپورٹ : ایم ریاض) 11مئی کے عام انتخابات میںصوبہ خیبرپی کے کی صوبائی اسمبلی کی99جنرل نشستوں پر ہونے والے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو 35 نشستوں پرکامیابی ملی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے13، جمعیت علمائے اسلام (ف) نے13، جماعت اسلامی نے 7، آفتاب شیر پاﺅکی قومی وطن پارٹی نے7، عوامی نیشنل پارٹی نے5، صوابی کے عوامی جمہوری اتحاد نے3، پاکستان پیپلزپارٹی نے3 اور پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ نے ایک نشست پرکامیابی حاصل کی۔ ان انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی 13 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب قرار پائے یوں صوبائی اسمبلی کی99 جنرل نشستوں پر ہونے والے انتخابات میںکسی بھی جماعت کو ایوان کی سادہ اکثریت حاصل نہ ہو سکی۔ پاکستان تحریک انصاف 35 نشستوںکے ساتھ صوبے کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ انتخابات کے انعقاد کے فوراً بعد جمعیت علماءاسلام (ف) نے اپنی خاطرخواہ عددی حیثیت نہ ہونے کے باوجود صوبے میں حکومت سازی کی کوششوں کا آغاز کیا جس کیلئے جے یو آئی (ف)کے امیر مولانا فضل الرحمن نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف سے رابطہ کیا تاہم میاں محمد نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی صوبائی قیادت نے ایسی کسی پیشکش پر مثبت ردعمل کے ا ظہارکی بجائے پاکستان تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے اور اسے حکومت سازی کا موقع دینے کا اعلان کیا۔ مسلم لیگ (ن) کا یہ اعلان عملاً صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کا پیش خیمہ ثابت ہوا کیونکہ چھوٹی جماعتیں اور اچھی خاصی تعداد میں منتخب ہونے والے آزاد ارکان اس انتظار میں تھے کہ مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی کی پوزیشن میں آنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن)کی جانب سے خیبر پی کے میں پاکستان تحریک انصاف کا راستہ روکنے میں ان کے وارے نیارے ہوںگے اور ماضی کی روایات کے پیش نظر اس بار بھی انہیں من پسند وزارتوںکے ساتھ ساتھ دیگر مراعات ملیںگی۔ صوبہ میں ایک ایسی کمزور حکومت وجود میں آئے گی جس میں نہ صرف ہر جماعت بلکہ ہر ایک رکن حکومت پر دباﺅ ڈالنے اور اپنی شرائط منوانے کی پوزیشن میں ہوگا۔ دوسری طرف صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن)کے پارلیمانی لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ سردار مہتاب احمد خان کا م¶قف تھا کہ قومی اور بین الاقوامی عوامل کی وجہ سے حساس ترین حیثیت حاصل کرنے والاصوبہ خیبر پی کے کسی سیاسی محاذ آرائی اور عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جمہوری روایات کے مطابق تحریک انصاف کو اس بات کا موقع دیا جائے کہ وہ صوبائی اسمبلی میں اکثریت ثابت کرکے حکومت تشکیل دے اور تبدیلی کے ان وعدوںکو پورا کرے جو اس نے عام انتخابات کے موقع پر صوبہ کے عوام سے کئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اس م¶قف سے جہاں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور اس کی قیادت کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا وہاں جماعت اسلامی، پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ اور علاقائی جماعتوں قومی وطن پارٹی اور عوامی جمہوری محاذ کو تحریک انصاف کے ساتھ مخلوط حکومت کے قیام کا فیصلہ کرنے میں آسانی ہوئی جبکہ 13میں سے 9 آزاد ارکان بھی پاکستان تحریک انصاف سے جا ملے۔ صوبہ خیبر پی کے کی وزارت اعلیٰ کیلئے پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر اسد قیصر خواہشمند امیدوار تھے۔ صوابی سے تعلق رکھنے والے جواں سال اسد قیصر پارٹی کے قیام سے تحریک انصاف سے وابستہ رہے اور فعال نظریاتی کارکن کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن پارٹی کے سربراہ عمران خان نے گذشتہ سال پارٹی میں شامل ہونے والے پرویز خان خٹک کو وزارت اعلیٰ کیلئے نامزدکیا۔ نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے پرویز خان خٹک 1988ءکے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے بعد وزیراعلیٰ آفتاب شیر پاﺅ کی پی پی پی حکومت میں وزیر صنعت تھے۔ شیرپاﺅ نے محترمہ بینظیر بھٹو سے اپنی سیاسی راہیں جدا کرکے پیپلزپارٹی میں اپنا گروپ قائم کیا تو پرویز خٹک آفتاب شیرپاﺅ کے ساتھ ان کی پارٹی میں شامل ہوئے۔ 2000ءکے بلدیاتی انتخابات میں پرویزخٹک نوشہرہ کے ضلع ناظم منتخب ہوئے، 2008ءکے عام انتخابات میں وہ پیپلزپارٹی شیرپاﺅکے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن بنے، بعد میں پارٹی سے اپنا سیاسی راستہ الگ کرکے وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی کی اے این پی حکومت میں وزیر آبپاشی بنے۔ پرویز خٹک کو صوبہ کی روایتی سیاست اور جوڑتوڑ میں مہارت حاصل ہے۔ جماعت اسلامی اور شیرپاﺅکی قومی وطن پارٹی سے اتحاد کے مذاکرات میں پرویز خٹک نے ان دونوں جماعتوں سے ایک ایک سینئر وزیر لینے اور مجموعی طور پر دونوں جماعتوںکو تین تین وزارتیں دینے کا فیصلہ کیا جن میں خزانہ، تعلیم اور عشر و زکوٰة جماعت اسلامی جبکہ آبپاشی، صنعت، ماحولیات کی وزارتیں شیرپاﺅ کی پارٹی کے حصہ میں آئیں اس کے ساتھ صوابی کے عوامی جمہوری اتحاد کو زراعت کی وزارت دینے کا معاہدہ کیا گیا۔ آزاد ارکان کو بھی صوبائی کابینہ میںکھپانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ مخلوط حکومت کے قیام کے اس معاہدہ میں صوبائی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکرکے عہدوں پر تحریک انصاف کے اسد قیصر اور امتیاز شاہد قریشی کا انتخاب عمل میں لایا گیا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کیلئے حکمت عملی مرتب کی گئی تھی جس کے تحت لکی مروت سے جے یو آئی (ف) کے رکن منورخان کو سپیکر جبکہ پشاور سے مسلم لیگ (ن)کے ارباب اکبر حیات کو ڈپٹی سپیکرکے عہدے کیلئے امیدوار نامزد کیا گیا تھا تاہم ماضی کی روایات کے مطابق اس بار بھی صوبائی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب پر حکومت اور اپوزیشن کے مابین مفاہمت طے پاگئی اور یوں اسد قیصر بلامقابلہ صوبائی اسمبلی کے سپیکر اور امتیاز شاہد قریشی ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے۔ خیبرپی کے کی اسمبلی مجموعی طور پر 124 ارکان پر مشتمل ہے جن میں 99 جنرل نشستوںکے علاوہ 22 خواتین اور 3 اقلیتی ارکان شامل ہیں۔ الیکشن کمشن کی جانب سے جنرل نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے نتائج کے تناسب سے سیاسی جماعتوںکو صوبائی اسمبلی میں یہ مخصوص نشستیںالاٹ کر دی گئی ہیں جن میں پاکستان تحریک انصاف کو خواتین کی 10 اور ایک اقلیتی نشست، پاکستان مسلم لیگ (ن) کو خواتین کی تین ایک اقلیتی نشست، جمعیت علمائے اسلام (ف) کو تین اور ایک اقلیتی نشست، قومی وطن پارٹی کوخواتین کی 2 جبکہ اے این پی، پیپلزپارٹی اور عوامی جمہوری اتحادکو صوبائی اسمبلی میں خواتین کی ایک ایک مخصوص نشست ملی ہے یوں صوبائی اسمبلی میں حکومتی اتحادکے ارکان کی تعداد 79 ہو گئی جن میں تحریک انصاف کے ارکان کی مجموعی تعداد 55، قومی وطن پارٹی 9، جماعت اسلامی8، عوامی جمہوری اتحاد 5 اور آل پاکستان مسلم لیگ کا ایک رکن شامل ہے۔ اس کے مقابلہ میں صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن یا حکومتی اتحاد سے باہر رہنے والے ارکان کی تعداد 44 ہے یوں تحریک انصاف اور اس کے اتحادی جماعتوںکو حکومت سازی میںکسی مشکل کا سامنا نہیں تاہم تحریک انصاف کو ایوان میں سادہ اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ان اتحادی جماعتوںکو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔ صوبہ خیبر پی کے کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروںکے مطابق مختلف خیال سیاسی جماعتوں اور آزاد ارکان کے بل بوتے پر قائم خیبر پی کے کی تحریک انصاف حکومت کو وقتاً فوقتاً ان چھوٹی جماعتوں اور آزاد ارکان کے دباﺅ کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف مراحل پر اپنے م¶قف پر بھی سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ وہ اس ضمن میں میاں محمد نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ (ن)کی صوبائی قیادت کے اس فیصلہ کو دانشمندانہ قرار دے رہے ہیںکہ بدترین دہشت گردی، معاشی بدحالی، اداروں کی زبوں حالی، بدعنوانی، لوڈشیڈنگ اور غربت، صحت، تعلیم، مواصلات اور دیگر سنگین مسائل سے دوچار خیبر پی کے میں غیرمستحکم اور ڈانواں ڈول حکومت کی تشکیل اور حکومت سازی کیلئے ممکنہ اتحادیوںکے مستقل اور مسلسل دباﺅ کا سامناکرنے کی بجائے انہوں نے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کو صوبہ میں دہشت گردی کے خاتمہ اور دیرپا امن کے قیام سمیت ان تمام سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ یوں تو 124 ارکان پر مشتمل صوبائی اسمبلی میں 88 ارکان پہلی بار صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں تاہم پارلیمانی سیاست میں نوواردوں کی تعداد تحریک انصاف میں سب سے زیادہ ہے۔ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے 35 ارکان میںسے نامزد وزیراعلیٰ پرویزخٹک سمیت 4 ارکان صوبائی اسمبلی کو مختلف اوقات کا پارلیمانی تجربہ حاصل ہے جبکہ باقی تمام ارکان پارلیمانی سیاست کے نووارد ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت مختلف شعبوںکے ماہرین اور ٹیکنوکریٹس کے ذریعہ صوبہ خیبر پی کے میں تحریک انصاف حکومت کی مانیٹرنگ اور رہنمائی (باالفاظ دیگر نگرانی) کا عندیہ دے رہی ہے یہ ماہرین غیر منتخب اور غیر نمائندہ حیثیت کے حامل اور صوبہ خیبر پی کے سے باہر کے ہوںگے جن کی صوبہ کے حکومتی اور انتظامی معاملات میں اس بے پناہ عمل دخل سے بھی مسائل جنم لینے کے خدشات ظاہرکئے جا رہے ہیں۔ بالخصوص ان خدشات کو اس حوالہ سے بھی تقویت مل رہی ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت اور یہ غیرمنتخب تھنک ٹینک اپنے انتخابی منشور اور پارٹی پروگرام کے تحت صوبے میں اقدامات کریں گے جبکہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں اپنے اپنے کوٹے کی وزارتوں میں بااختیار ہونے کی کوشش کریںگی۔