پاکستان نے لشکر جھنگوی کیخلاف کارروائی نہیں کی‘ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے اب بھی ہیں : امریکہ
واشنگٹن (نمائندہ خصوصی + ایجنسیاں) امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2012ءمیں پاکستان، عراق اور افغانستان دہشت گردی کے بدترین حملوں کا شکار رہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کی مرکزیت میں دراڑیں پڑی ہیں، یہ خطرہ جغرافیائی طور پر بڑے علاقے میں پھیل گیا ہے۔ 2012ءمیں دہشت گردوں کے 6771 حملوں میں 11 ہزار افراد مارے گئے۔ 21600 زخمی ہوئے۔ 55 فیصد حملے، 62 فیصد ہلاکتیں اور 65 فیصد زخمی پاکستان میں ہوئے۔ پاکستان افغان سرحد پر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ابھی تک موجود ہیں۔ 2012ءکے دوران پاکستان دہشتگرد حملوں اور فرقہ وارانہ حملوں کی زد میں رہا جس کے دوران 2000 شہری اور 680 سکیورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے۔ امریکی وزارت خارجہ کو پیش کردہ اس رپورٹ میں قرار دیا گیا ہے کہ پاکستان اور افغان سرحد کے دونوں اطراف دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان نے افغان امن کو فرو غ دینے کیلئے اقدامات کی حمایت کی اور طالبان سے عوامی سطح پر مطالبہ کیا کہ وہ افغان حکومت سے مذاکرات کرے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں وسیع پیمانے پر دہشتگرد حملے کئے گئے جن میں پاکستانی فوجی اور سکیورٹی اہلکاروں سمیت معاشروں کے تمام طبقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستانی ملٹری یونٹس ، پولیس سٹیشنوں ، سرحدی چوکیوں اور دیگر مضافات پر ہونے والے دہشتگردی اور خود کش حملوں میں 2ہزار سے زائد شہری اور 680سے زائد سکیورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے، دہشتگرد گروپوں نے امن کمیٹی کے قبائلی رہنماﺅں سمیت طالبان مخالف سرکاری حکام کو قتل کیا۔ پاکستان میں شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کیخلاف ہونیوالی اکثر دہشتگر کارروائیوں کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی 2012ءکے دوران پاکستان القاعدہ کیخلاف انسداد دہشتگردی کی کارروائیوں میں اہم شراکت دار رہا۔ پاکستان نے دہشتگرد کارروائیاں کرنیوالے دہشتگرد گروپوں کیخلاف آپریشنز بھی کئے۔ 2012ءرپورٹ برائے ورلڈ وائڈ ٹیررازم میں دہشتگردی کیخلاف پاکستان کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکام مسلسل عملی اقدامات سمیت دہشتگردی اور تشدد کیخلاف سرعام بیان دیتے رہے ہیں ۔ مارچ میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے ملک سے دہشتگردی اور تشدد کے خاتمہ کا عزم دہرایا اور دہشتگردی کیخلاف کئی قانون بنائے۔ سرحد کے دونوں جانب قائم محفوظ ٹھکانے افغان طالبان، حقانی نیٹ ورک ، تحریک طالبان پاکستان اور ان جیسے دیگر گروپس مسلسل امریکہ اور اتحادیوں کیخلاف آپریشن کر کے افغانستان اور پاکستان مفادات کو نقصان پہنچاتے رہے رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان نے لشکر جھنگوی کیخلاف کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا۔ امرےکی محکمہ خارجہ نے دعوی کےا ہے کہ پاکستان میں القاعدہ کی قیادت کو کمزور کرنے کی کوششیں جاری رہیں۔ القاعدہ کی لیڈرشپ کی ہلاکتوں کے نتیجے میں اس کی براہ راست کارروائیوں کی استعداد میں خاصی کمی ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق 2012ءمیں ایران دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاستوں کے زمرے میں نمایاں رہا، جس میں پاسدارانِ انقلاب کی القدس فورس؛ ایران کی وزارت انٹیلی جنس اور سلامتی اور ایران کے اتحادی حزب اللہ کی کارستانیاں توجہ طلب تھیں۔ ان کی کارروائیاں 1990ءکی دہائی کے بعد کی بلند ترین سطح پر تھیں۔ ایران اور حزب اللہ نے اسد حکومت کو ایک وسیع تر حمایت فراہم کرنا جاری رکھی، جو شام کے عوام کے خلاف تشدد کی سفاکانہ کارروائیاں جاری رکھیں۔ پاکستان میں القاعدہ کی قیادت کو کمزور کرنے کی کوششیں جاری رہیں القاعدہ کے خلاف کارروائیوں میں اس کے سرغنے زیادہ تر اپنی جان بچانے کی فکر میں رہے۔پھر، مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں القاعدہ کی قیادت شکست کی راہ کی طرف چلتی رہی اور اس سے منسلک دو خطرناک ترین تنظیموں کی کمر توڑ دی گئی۔ یمن کے جنوبی علاقے میں حکومت کا کنٹرول دوبارہ بحال کیا گیا۔ اِسی طرح صومالیہ سے الشباب دہشت گرد تنظیم کو ملک کے اہم شہروں سے نکال دیا گیا۔ لیبیا کے انقلاب کے تناظر میں اسلحے کے انبار بکھر گئے، طوراق کے باغیوں کو، اور مالی میں تختہ الٹنے کے بعد دہشت گردوں کو نئے مواقع میسر آئے۔ تاہم‘ فرانس اور افریقی ممالک کی طرف سے کی گئی کارروائی کے نتیجے میں مالی میں دہشت گردی کے خطرے میں کمی ہوئی‘ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ القاعدہ کی ذیلی شاخیں اپنی اہداف تیار کرنے لگیں اور اپنے طور پر نشانوں کا تعین کرنے لگیں اور رقم کیلئے وہ اغوا برائے تاوان اور دیگر مجرمانہ کارروائیوں کی طرف دھیان مرکوز کرنے لگیں۔