فصیح بخاری کی تقرری‘ صدر کی جلد بازی ناقابل فہم ہے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (آن لائن + نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب فصیح بخاری کیخلاف چودھری نثار علی خان کی درخواست پر تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ ستائیس صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدر نے اپوزیشن لیڈر کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔ سابق چیئرمین دیدار شاہ کے جانشین کی تقرری کیلئے سپریم کورٹ نے حکومت کو ایک ماہ کا وقت دیا تھا تاہم حکومت نے ساڑھے تین ماہ لگا دئیے۔ فصیح بخاری کی تقرری میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا اور اس حوالے سے بامعنی، مخلصانہ مشاورت نہیں کی گئی۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس سے چیئرمین نیب کی تقرری کے حوالے سے مشاورت عدالتی فیصلے نہیں محض ایک تجویز ہے بعض عدالتی فیصلوں پر نظرثانی کے دلائل میں اٹارنی جنرل اور فصیح بخاری کے وکیل کا م¶قف درست نہیں۔ یہ فیصلے سوچ سمجھ کر دئیے گئے ہیں۔ غیر قانونی تقرری پر کوئی بھی عدالت کو ہدایت جاری نہیں کر سکتا۔ تفصیلی فیصلہ 27 صفحات پر مشتمل ہے جسٹس آصف کھوسہ نے فیصلہ تحریر کیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ قائد حزب اختلاف کو خط لکھنے کے بعد صدر کی جانب سے کی جانے والی جلد بازی ناقابل فہم ہے۔ صدر کو قائد حزب اختلاف کی تجویز سے اختلاف تھا تو وہ ایک اور خط لکھ سکتے تھے۔ صدر دوسرے خط میں کہہ سکتے تھے کہ تجاویز قابل قبول نہیں۔ بامعنی مشاورت اور اتفاق رائے پر پہنچنے کی کوشش کی جاتی تو کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچتا، یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہیں کہ صدر نے قائد حزب اختلاف سے مشاورت کی سنجیدہ، مخلصانہ اور حقیقی کوشش نہیں کی۔ چیئرمین کی تقرری کیلئے نیب آرڈیننس کے سیکشن 6 بی ون کے تحت مشاورت نہیں ہوئی۔ دوسری طرف سابق چیئرمین فصیح بخاری نے سپریم کورٹ کے اپنی تقرری کو کالعدم قرار دینے کے فیصلہ کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کر دی۔ سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کی تقرری کالعدم قرار دے دی تھی۔ نظرثانی درخواست میں کہا گیا کہ چیئرمین نیب کو صرف صدر ہی ہٹا سکتا ہے۔ درخواست سابق چیئرمین کی جانب سے ان کے وکیل لطیف کھوسہ نے دائر کی۔