• news

مشرف کیخلاف غداری کیس : سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کا ریکارڈ طلب کرلیا

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ میں سابق صدر مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت آج منگل تک ملتوی کر دی گئی۔ ایڈووکیٹ اے کے ڈوگر کو عدالت نے ہدایت کہ وہ آج تک دلائل مکمل کریں ایڈووکیٹ اے کے ڈوگر نے کہا کہ اگر آئین پامال کرنے والوں سے وی آئی پی سلوک ہو گ تو عبرت کہاں سے آئے گی؟ عدالت قرار دے چکی ہے کہ ماضی میں آئین توڑنے والوں کو سزا نہ دے کر آئین کی پامالی کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔ یہ عدلیہ اور وکلاءکی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ دروازہ بند کریں۔ مشرف فریدی کیس کے فیصلے میں عدالت قرار دے چکی ہے کہ آئین پر عملدرآمد کو یقینی بنانا عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ یہ قومی کیس ہے جس میں مشرف کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ججز کو لگانے اور ہٹانے کا نہیں آئین توڑنے کا معاملہ ہے۔ عدالت صرف ایک لائن لکھ دے کہ مشرف کے خلاف آئین و قانون کے مطابق کارروائی کی جائے تو ہم مقدمہ جیت جاتے ہیں اور ہمیں خوشیاں منانی چاہئیں۔ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ کسی ذمہ دار کا نام درخواست میں نہ ہو تو پھر بھی اسے بلا سکتی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں اے کے ڈوگر نے کہا کہ سابق صدر مشرف آرٹیکل 6کے تحت غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس کے وہ واحد ذمہ دار ہیں۔ پرویز مشرف کے غیرآئینی اقدامات کو ججز اور وکلاءنے دیکھنا ہے۔ پرویز مشرف کا موقف غلط ہے کہ انہیں سماعت میں سننے کا موقع نہیں ملا۔ اس وقت مشرف کے وکلا کا کہنا تھا کہ وہ درخواستوں میں فریق نہیں ہیں سابق صدر نے عدالتی نوٹس پر پیش ہونے کی کوشش نہیں کی۔ عدالتیں ازخود نوٹس جاری کرتی ہیں۔ عدالت نے ضرورت سمجھی تھی تو ان کا موقف جاننے کے لئے ان (مشرف) کو نوٹس جاری کئے تھے۔ سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے قرار دیا کہ مشرف کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ سپریم کورٹ اپنے حکم میں کہہ چکی ہے کہ مشرف سمیت سب کو اپنے خلاف عدالتی کارروائی کا علم تھا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کیس میں کسی درخواست گزار نے پرویز مشرف کے خلاف ریلیف نہیں مانگا۔ ہمیں خدشہ ہے کہ اس فیصلے کو پرویز مشرف کے خلاف نہیں سمجھا جائے گا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ درخواست گزار نے 3نومبر 2007ءکے اقدام کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی تھی اور عدالت نے براہ راست 3نومبر کے اقدام کو غیر آئینی قرار دے کر مشرف کی جانب سے آئین کو پامال کرنے کا فیصلہ دیا۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ مشرف کی سزائے موت یا عمر قید کا فیصلہ بنائے جانے والے سپیشل کورٹ نے کرنا ہے۔ مقدمہ کے ایک درخواست گزار ایڈووکیٹ حامد خان بھی کہہ چکے ہیں کہ مشرف کو نوٹس جاری کیا جائے۔ پورے ملک میں کیس کی تشہیر ہے۔ ملک و بیرون ملک کا میڈیا کیس کو چھاپ رہا ہے۔ کیا یہ عدالت کی ذمہ داری نہیں کہ وہ کیس کے کلیدی کردار مشرف کو عدالت میں بلائے؟ آئین کے تحت مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 اور 5 کی کارروائی بنتی ہے۔ 3نومبر کا اقدام غیرقانونی غیرآئینی تھا۔ 23جولائی 2009ءعدالتی حکم پر پرویز مشرف کونوٹس بھیج کر بلایا گیا۔ اسلام آباد چک شہزاد کی رہائش گاہ پر محمد حسین نے نوٹس لینے سے انکار کیا جبکہ سپریم کورٹ بھی متعدد بار کہہ چکی ہے کہ مشرف نے نوٹس کی تعمیل نہیں کی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کیا مشرف ہائی کورٹ میں پیش ہوئے؟ اے کے ڈوگر نے کہا کہ میرے پاس سندھ ہائی کورٹ کا ریکارڈ نہیں وہ تو فاضل عدالت کے پاس ہونا چاہئے۔ عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ سپریم کورٹ میں سندھ ہائی کورٹ کیس کا ریکارڈ نہیں عدالت نے اسے منگوانے کی ہدایت کی کہ وہ جلد فاضل عدالت میں منگوایا جائے۔ دوسری جانب اسلام ہائیکورٹ ججز نظربندی کیس میں مشرف کی درخواست ضمانت کی سماعت آج ہو گی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ریاض احمد خان اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل ڈویژن بنچ درخواست کی سماعت کرے گا۔ ادھر ججز نظربندی کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف پہلا نامکمل عبوری چالان عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق عبوری چالان میں 16گواہوں کے بیان شامل ہیں۔ دس سینئر وکلا کے بیانات بھی چالان میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 2007ءکی ایمرجنسی کے نفاذ کے وقت اخبارات کے تراشے بھی چالان کا حصہ ہیں۔ پولیس نے سابق صدر پرویز مشرف کی تین نومبر کی تقریر کا ریکارڈ بھی حاصل کر لیا ہے۔ 

ای پیپر-دی نیشن