آرٹیکل 6 کی حدود کا تعین کرینگے‘ آئین توڑنے کی سزا پر فیصلہ دیکر قوم کا مستقبل محفوظ کرنا چاہتے ہیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوا ئے وقت + آن لائن + آئی این پی) سپریم کورٹ میں تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے سابق صدر پرویز مشرف غداری کیس کی سماعت آج بدھ تک کیلئے ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ آرٹیکل 6 کی حدود و قیود کا تعین کرنے اور آمر کو آئین توڑنے کی سزا دینے کے حوالے سے فیصلہ دے کر قوم کے مستقبل کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں‘ اس کیس سے قوم کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا‘ اس کیس کی اہمیت مشرف کی وجہ سے نہیں‘ یہ قومی اہمیت کے معاملے کا کیس ہے جس پر وقت لگاکر اسے نمٹانا چاہتے ہیں‘ ہم چاہتے ہیں کہ کل کوئی اور طالع آزما پھر اس طرح کے غیر آئینی اقدام کی جرات نہ کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ میرٹ پر دیں گے۔ یہ نہیں دیکھیں گے کہ ملزم کون ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف غداری کیس کی سماعت گذشتہ روز دوبارہ شروع ہوئی تو مولوی اقبال حیدر کے وکیل اے کے ڈوگر نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ مشرف کو نوٹس بھیجنے کا مطلب یہ علم میں لانا تھا کہ ان کیخلاف کیس کی سماعت کی جارہی ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں مشرف کے اقدامات کے حوالے سے کیس کی سماعت کی خبریں مسلسل چل رہی تھیں اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انہیں معلوم نہ ہو جبکہ انہیں چک شہزاد میں ان کی رہائشگاہ پر نوٹس بھی بھجوایا گیا یہ اور بات ہے کہ ان کی طرف سے کوئی بھی پیش نہیںہوا۔ 2009ءکے فیصلے میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے بہت وضاحت سے بات کردی ہے۔کہا گیا ہے کہ پورا کیس ایک ہی جملے میں تبدیل ہوگیا ہے۔ سر پر گن رکھ کر انصاف کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔ میں نے اپنے کلائنٹ سے پوچھا کہ سندھ ہائیکورٹ میں مشرف کی طرف سے کوئی پیش ہوا تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے ریکارڈ دیکھا ہے۔ عبدالحفیظ پیرزادہ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ انہوں نے عدالت مےں مشرف کی پاور آف اٹارنی جمع کرائی ہے مگر اس کے بعد وہ پیش ہوئے اور نہ ہی پاور آف اٹارنی کا پتہ چل سکا ہے۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ ججوں نے تو صرف یہ دیکھنا تھا کہ مشرف کا اقدام آئینی تھا یا نہیں۔ یہ اس شخص کا کیس ہے کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ریاستی ضرورت کے تحت اقدام اٹھایا اور خود کو محب وطن قرار دیا۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ دوسرے مقدمے میں بھی مشرف کا اقدام مختلف نہیں تھا۔ پرویز مشرف اہلیت کیس کا بھی تذکرہ کیا۔ انہوں نے تمام مدعا ان ججوں پر ڈالنے کی کوشش کی جو اس کی اہلیت کیس کی سماعت کررہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان ججوں کو نکال باہر کر دیں کہیں یہ مجھے نااہل قرار نہ دے دیں۔ پرویز مشرف کے وکیل نے دنیا کے کئی ممالک میں مارشل لاءلگانے کی بات کی مگر عدلیہ کیساتھ مخاصمت کی بات نہیں کی۔ 3 نومبر 2007ءکا اقدام بین الاقوامی تاریخ کا ایک منفرد اقدام تھا۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ کیا آج آپ دلائل مکمل کر لیں گے اسلئے دیگر وکلاءکو دلائل دینے کیلئے تیار رہنے کو کہا تھا۔ مولوی اقبال حیدر کے وکیل اے کے ڈوگر نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف ثبوت موجود ہیں کہ سابق ڈکٹیٹر نے آئین شکنی کا جرم کیا ہے۔ چنانچہ ان پر غداری کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے، اس طرح ہمیشہ کےلئے فوجی مداخلت کا دروازہ بند ہوسکے گا۔ جسٹس عارف خلجی نے کہاکہ سندھ ہائی کورٹ نے مقدمے میں تین نومبر کے اقدام کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی اور عدالت نے ان اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے یہ معاملہ سپریم کورٹ کی ہدایات سے مشروط کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا جب وہ ملزم قرار دیئے جا چکے ہیں تو انہیں صرف سزا دینا باقی رہ گیا ہے۔ بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ سزا دینا خصوصی عدالت کا کام ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے اس موقع پر کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کے مقدمے میں درخواست گزار نے پرویز مشرف کو براہ راست فریق نامزد نہیں کیا تھا، نہ ہی پرویز مشرف پر آئین شکنی کے الزام میں مقدمہ چلانے کی درخواست کی گئی تھی۔ اے کے ڈوگر نے اپنے دلائل میں کہا کہ اگر کسی درخواست میں کوئی فریق براہ راست نامزد نہ کیا گیا ہو تو یہ عدالت کا کام ہوتا ہے کہ وہ واقعاتی شہادتوں کی روشنی میں فریق کا تعین کرکے اس کو قانونی نوٹس جاری کرے اور عدالت اس کا اختیار رکھتی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اس مقدمے کے فیصلے سے متعلق قانونی طریقہ کار پر عمل پیرا ہونا لازم ہے اور اس طریقہ کار کے بغیر کسی فریق کو سزا نہیں سنائی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ سنگین غداری کے الزامات کے حوالے سے کوئی عدالت ازخود نوٹس نہیں لے سکتی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ غداری کے الزام میں سزا کے تعین کا اختیار خصوصی عدالتوں کے پاس ہے، یہ طے کرنا کہ ایسے مجرم کو کیا سزا دی جائے یہ خصوصی عدالت طے کرے گی۔ عدالت نے مقدمہ کی مزید سماعت آج بدھ تک کیلئے ملتوی کر دی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالت آرٹیکل 6 کی حدود و قیود کو بیان کرنا چاہتی ہے تاکہ مستقبل میں عدالتی فیصلہ ایک نظیر ثابت ہو۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ عدالت ایک ایسا فیصلہ دے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے اور ہمارے بعد بھی قومی کتب میں محفوظ رہے۔