• news

حسین حقانی کو ہر قانونی طریقہ اختیار کر کے 4 ہفتوں میں وطن واپس لایا جائے: سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + بی بی سی) سپریم کورٹ نے میمو سکینڈل کے مرکزی کردار حسین حقانی کی 4 ہفتوں میں وطن واپسی کے لئے سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری خارجہ اور اٹارنی جنرل کو آئینی و قانونی طریقہ کار اپنانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 4 ہفتوں کے لئے ملتوی کر دی ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے ابھی حسین حقانی کو مجرم قرار نہیں دیا وگرنہ ان کے پاسپورٹ کی منسوخی اور جبری طریقہ سے واپسی کے احکامات دے سکتی ہے، میمو کمشن کی رپورٹ آ چکی ہے، ملک آئین و قانون کے تحت چل رہا ہے، قانون کی نظر کوئی وزیراعظم بن جائے اس سے فرق نہیں پڑے گا، جب تک سپریم کورٹ موجود ہے کوئی کسی سے زیادتی نہیں کرے گا، اگر عدالتیں مضبوط نہیں ہوں گی تو ادارے کیسے مضبوط ہوں گے؟ منگل کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں قائم 9 رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی تو حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا ان کی گذشتہ رات حسین حقانی سے فون پر بات ہوئی وطن واپسی پر انہیں تحفظات ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف درخواست دینے والا میاں نوازشریف وزیراعظم بننے جا رہا ہے اور اقتدار سنبھالتے ہی وہ ان کے خلاف کارروائی کریں گے، وہ اپنی انا کی خاطر وطن واپس آ کر جان کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گذشتہ سماعت میں فاضل عدالت نے ہدایت کی تھی کہ حسین حقانی سکیورٹی فراہمی کے باوجود پیش نہ ہوئے تو انہیں جبراً واپس بلایا جائے گا۔ انہوں نے عدالت میں بیان حلفی جمع کروا رکھا ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اگر عدالت قانون سے بالاتر ہو کر جبری طریقے استعمال کرے گی تو حسین حقانی بھی اپیل کا حق رکھتے ہیں، ابھی وہ مجرم نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ابھی وہ ملزم نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر کارروائی نہ ہوئی تو مستقبل میں عدالتیں ملزمان کو ملک چھوڑنے کی اجازت دینے سے کترائیں گی۔ کمشن کی رپورٹ آ چکی، حسین حقانی اور منصور ا عجاز کے خلاف باقاعدہ ٹرائل ہونا چاہئے۔ عاصمہ نے کہا کہ منصور کو ویڈیو لنک کی اجازت دی گئی حقانی کو نہیں۔ چیف جسٹس نے ایک موقع پر کہا کہ نوازشریف کے وزیراعظم بننے سے کیس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ حسین حقانی کی سکیورٹی کی ذمہ داری وزارت داخلہ کو دی گئی تھی اور سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ وطن واپسی پر تمام ممکنہ سکیورٹی فراہم کی جائے گی تو پھر اس میں خدشات کہاں سے آ گئے۔ 

ای پیپر-دی نیشن