پاکستان کا نیا جمہوری چہرہ
یہ نیا نہیں ،پرانا چہرہ ہے، نئے الیکشن ضرور ہوئے ہیں مگر کم و بیش پچھلی ربع صدی والا منظر دیکھنے کو ملا ہے۔1985 کے انتخابات غیر سیاسی تھے مگر جلد ہی ایوان نے مسلم لیگ کا نقاب اوڑھ لیا۔ محمد خاں جونیجو پرانے مسلم لیگی تھے، انہوں نے اس جماعت کو پھر سے زندہ کر دیا۔ اب یہ جماعت خالص مسلم لیگ تھی۔ مگر1988سے پرانی آویزش کا آغاز ہو گیا۔ پیپلز پارٹی بھی میدان میں آ گئی اور پھر سرکاری اداروں کی سرپرستی میں باری باری کے کھیل کا آغاز ہو گیا۔یہ کھیل انتہائی افسوسناک تھا۔کوئی پارٹی اقتدار میں اپنی ٹرم پوری نہ کر سکی۔ایک تو اسٹیبلشمنٹ کی پیچھے سے انگیخت تھی، دوسرے متحارب لیڈرشپ کی رگوں میں جوان خون دوڑ رہا تھا، ایک جذباتی فضا بن گئی تھی۔اور یوں لڑتے لڑتے ہو گئی گم، ایک کی چونچ اور ایک کی دم۔ نہ مسلم لیگ کا نام و نشان رہا ، نہ پیپلز پارٹی میدان میں کہیں نظر آئی،دونوں کی لیڈر شپ یا تو جلا وطن تھی یا قیدو بند کا شکار۔دونوں پارٹیوں کی قیادت کے ہوش ٹھکانے آ گئے تو لندن میں ایک چارٹر آف ڈیمو کریسی پر دستخط ہوئے، بہت سے عہدو پیمان باندھے گئے۔پچھلے پانچ سال اسی میثاق کی برکت سے جیسے تیسے گزر گئے۔اور اب کہنے کو تو نیا مینڈیٹ آ گیا ہے مگر مجھے تو اس میں میثاق لندن کی جھلک نظر آتی ہے۔ ابھی باری باری کا کھیل ختم نہیں ہوا، لفظ مک مکا منفی معنوں میں استعمال ہوتا ہے، اس لئے اس سے گریز کرتا ہوں مگر عوام کو باری باری کے کھیل میں دونوں بڑی پارٹیوں کی صلاحیتوں کو جانچنے کا موقع مل گیا ہے۔مسائل ان کے سامنے یکساں تھے۔ لوڈ شیڈنگ سے شروع ہو جائیں اور ڈرون تک گنتی کریں ،فاقہ کشی سے شروع ہوجائیں اور خسرے کے ہاتھوں اموات تک گنتی کر لیں، مسائل نہیں بدلے اور وسائل میں بھی کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی، ایک فرق البتہ ضرور ہے ، پیپلز پارٹی اپنی تجربہ کار لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو سے محروم ہو گئی،یہ فیکٹر پی پی پی کی پچھلی حکومت کی ناکامیوں کا باعث بنا مگر اس کی کامیابیاں بھی بے حدو حساب تھیں، مسلم لیگ ن کے پاس ایک نہیں دو لیڈر ہیں اور دونوں سگے بھائی،اور دونوں ایک دوسرے سے بڑھ کر صلاحیتوں سے مالا مال۔ان صلاحیتوں کے مثبت پہلو بھی سامنے آتے رہے اور منفی بھی لیکن اب ان کے پاس غلطی کی گنجائش نشتہ، اس لئے کہ اسے چیلنج کرنے کے لئے صرف تحریک انصاف ہی نہیں، ایک آزاد میڈیا اور بہت ہی خود مختار عدلیہ بھی موجود ہے۔انہوں نے ووٹروں سے کونسا وعدہ ہے، جو نہیں کیاا ور ان میں کوئی ایک بھی پورا نہ ہوا تو ووٹر بپھر بپھر جائیں گے۔فوری طور پر نئی وفاقی حکومت کوکسی بڑی تبدیلی کا مظاہرہ کرنا ہے اور اگر تبدیلی یہی ہے کہ پارلیمنٹ ہاﺅس میں لاہور کے ہجوم نے ہر قیمت پر گھس جانا ہے تو یہ نیک شگون نہیں ہے۔ایسا ہجوم پہلے بھی سپریم کورٹ کی عمارت پر دھاوا بول چکا ہے ۔درست ہے کہ لاہور نئے وزیر اعظم اور اسپیکر کا شہر ہے مگر پاکستان لاہور کا نام نہیں ، ہجوم ہی لاناتھا تو کیچ مکران سے لاتے، ہنگو سے لاتے، لاڑکانہ سے لاتے۔ نئی حکومت کے چاہنے والے کیا پورے پاکستان میں نہیں ہیں، ضرور ہیں۔انہیں بھی اسلام آباد کی رونقیں دیکھنے کا موقع ملنا چاہئے تھا۔
ٹھہریئے، پہلے تو مجھے میاںنواز شریف کو مبارکباد دینی ہے، وہ قسمت کے دھنی نکلے،انہوں نے فائٹنگ اسپرٹ کا مظاہرہ کیا اور بالآخر میدان مار لیا، پاکستان جیسے ملک میں جہاں وزیر اعظموں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا یا قلعوں میں ٹھونس دیا گیا،واپس اقتدار میں آنا ایک معجزہ ہے اور میں یہی کہوں گاکہ یہ اللہ کی دین ہے اور اگر نواز شریف بھی اسے اپنے زور بازو کا نتیجہ یا اپنا حق نہ سمجھ بیٹھیںبلکہ خدائی عطیہ گردانیں اور عجز اختیار کریں تو ان کے سامنے مسائل کا کو ہ گراں ریزہ و شکستہ ہو جائے گا۔
قوم نے ایک تاریخی دن دیکھا، ایک منتخب حکومت سے اگلی منتخب حکومت کو اقتدار منتقل ہوا، اس پر پوری قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔مخدوم امین فہیم نے اسے اپنی پارٹی کا کریڈٹ کہا،عدلیہ الگ اس کا کریڈٹ لیتی ہے، فوج کا اس میں مخصوص کردار ہے، جس جس نے 5 جون کے تاریخ ساز لمحات تخلیق کرنے میں حصہ ڈالا، تاریخ ان پر فخر کرے گی، مگر اب آگے کیا ہے، صرف اسی ایک فخر سے نہ پیٹ بھرے گا ، نہ روح کو غذا میسر آئے گی ، نہ بدن کی حفاظت کی جا سکے گی۔زندہ رہنے کے لئے اور قوموں کی برادری میں سر اونچا کرنے کے تقاضے الگ ہیں، ان کی تکمیل کی طرف بھی دھیان دینا ضروری ہے۔
جادو کی چھڑی صرف کہانیوں تک محدود ہے اور کسی انسان کو کن فیکون کا اختیار بھی حاصل نہیں۔ حضورخاتم النبین ﷺ نے ربع صدی کی جدو جہد کے بعد ایک ریاست کا ڈھانچہ منظم کیا، ہماری قوم اور اس کی قیادت کو بھی صبر وتحمل مگر محکم عزم کے ساتھ کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے، راتوں رات خوابوں کی تعبیر پانے کی خوش فہمی سے دامن چھڑانا چاہئے۔ حکومتیں آتی اور جاتی ہیں ، ہر ایک اپنا کردار ادا کرتا ہے اور یوں تاریخ بنتی ہے یا بگڑتی ہے، کہانی آگے بڑھتی ہے یا رک جاتی ہے ،کوئی نجات دہندہ، کوئی مسیحا،کوئی مردے از غیب ،افسوں نہیں پھونک سکتا۔
ہمارے سامنے مثالیں بہت سی ہیں۔ قائد اعظم کی راہنما مثال بھی ہمارے سامنے ہے، ان کا درس۔۔ اتحاد، تنظیم اور ایمان۔۔ ہمارے لئے مشعل راہ ہونا چاہئے۔ اس الیکشن نے قومی وحدت میں نئی دراڑیں ڈالی ہیں۔پہلے ہی ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ خیبر پی کے میں ایک رکن اسمبلی کے روح فرسا قتل نے فسادات کی آگ بھڑکا دی ہے۔ہمیں اس آگ کو بجھانا ہے، شعلوں کو ٹھندا کرنا ہے، انتخابی مہم کے دوران جن تعصبات نے سر اٹھایا،ان کو کچلنا ہے۔افسوس کہ وزیر اعظم کے انتخاب کے بعد قومی اسمبلی میں کی گئی تقریروںمیں اس جذبے کی جھلک نہیں ملتی جو اتحاد، تنظیم اور ایمان کے اصول کو تقویت پہنچا ئے ۔خدشات کے بگولے ہیں جو قلم پر لرزہ طاری کر رہے ہیں۔ نئے وزیر اعظم جو اتنے بھی نئے نہیں، اور ایوان میں موجود وہی پرانی قیادت، سبھی بخوبی جانتے ہیں کہ ہاتھوں میں ہاتھ کیسے ڈالا جائے یا جمہوری اصولوں کو کیسے پامال کیا جائے۔شیخ رشید اپنے جملوں پر قابو پائیں، مولانا فضل الرحمن علمیت اور فضیلت کے رتبے کا حق ادا کریں،اور خدا کرے کہ عمران خان جلد صحت یاب ہوں اور قوم کی امنگوں کی تکمیل کے لئے کوشاں ہوں۔انہیں پھینٹی لگانے کا شوق چرایا ہے تو قوم کو لاحق خطرات کو پھینٹی لگائیں۔اور وزیر اعظم میاں محمد نوا زشریف ماضی کی تلخیوں کو بھول کر ایک مدبر اور غیر منتازع لیڈرکے طور پرسامنے آئیں تو یقینی طور پر پاکستان کے نئے جمہوری چہرے پر نکھار آسکتا ہے۔تاریخ نے ایک ایسا لمحہ سامنے لا کر رکھ دیا ہے جب بناﺅ اور بگاڑ ، تعمیر اور تخریب کا فیصلہ ہونا ہے۔ آپ کا وزن کس پلڑے میں ہے۔