افسر فرعون بن چکے ہیں‘ پولیس سیدھی ہو جائے تو سارے جرائم ختم ہو جائیں گے: جسٹس افتخار
اسلام آباد (ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے حذیفہ قتل کیس میں اے ایس پی راولپنڈی مقدمے کے تفتیشی افسر کو دوبارہ رپورٹ جمع کرانے کاحکم دےدیا۔ مزید سماعت 14 جون تک ملتوی کر دی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اگر پولیس سیدھی ہو جائے تو سارے جرائم ختم ہو جائیں گے، پولیس افسران فرعون بن چکے ہیں‘ پولیس غریبوں سے زیادتیاں کرتے وقت آنکھیں بند کر لیتی ہے‘ محرر سے لے کر اوپر تک کوئی بھی ٹھیک کام نہیں کر رہا‘ اگر پولیس افسران کو اپنے علاقوں کے تھانوں میں قائم مقدمات کی معلومات نہیں تو ایسے پولیس افسران کو نوکری چھوڑ دینی چاہئے۔ بنچ نے اے ایس پی کو ٹھوس شواہد کے بغیر حسیبہ تیمور نامی لڑکی کو قید رکھنے پر جھاڑ پلا دی۔ ایس پی وحید خٹک نے عدالت کو بتایا کہ راولپنڈی میں چند سال قبل قتل ہونے والے حذیفہ نامی لڑکے کے موبائل فون کا کال ریکارڈ حاصل کیا گیا۔ آخری کال حسبہ کے نمبر سے کی گئی۔ پولیس اس کال کے ریکارڈ کو ٹھوس شہادت سمجھتی ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پولیس نے آخری کال کرنے والی لڑکی کو کس طرح قتل کا ملزم ٹھہرا دیا جبکہ آلہ قتل برآمد ہوا اور نہ ہی دیگر ٹھوس شواہد ملے جبکہ مجسٹریٹ کی رپورٹ سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس ٹھوس شواہد پیش نہیں کر سکی۔ چیف جسٹس نے اے ایس پی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کیوں اپنی نوکری کے پیچھے پڑے ہوئے ہو۔ پولیس کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے بھی کال ریکارڈ کو ہی ٹھوس شہادت قرار دیا۔ عدالت نے پولیس کا بیان مسترد کرتے ہوئے لڑکی کی ضمانت برقرار رکھی۔ جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ صرف ایک ٹیلی فون کال کی وجہ سے کسی بے گناہ کو مجرم کیسے سمجھا جا سکتا ہے۔ پولیس رویوں کی وجہ سے عوام پہلے ہی شاکی ہے اور اوپر سے اس طرح کے غیر قانونی کاموں سے عوام کا پولیس پر سے رہا سہا بھروسہ بھی ختم ہو رہا ہے۔ کسی بے گناہ کو مقدمے میں ملوث کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے۔