عبوری کمیٹی کے غیر آئینی اقدامات، پاکستان پابندی کے دہانے پر
محمد معین
انٹرنیشنل اولمپک کونسل کی منظور شدہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور سابقہ حکومت کی بین الصوبائی رابطہ کمیٹی (آئی پی سی) کی جانب سے غیر قانونی طور پر بنائی جانے والی عبور کمیٹی کے درمیان سرد جنگ شدت اختیار کر گئی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عارف حسن کی زیر نگرانی چلنے والی پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن جسے آئی او سی متعدد بار درست اور جائز قرار دے چکی ہے لیکن بعض عہدوں کے حصول کے متلاشی افراد نے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے عبوری کمیٹی بنا کر پاکستان کی تمام کھیلوں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ انٹرنیشنل اولمپک کونسل جس کے زیراہتمام دنیا کا سب سے بڑا سپورٹس ایونٹ اولمپکس منعقد ہوتا ہے وہ کسی طور پر حکومتی یا سیاسی مداخلت کو برداشت نہیں کرتا جس کی واضح مثال دنیا کے سب سے بڑے جمہوریت کے دعویدار بھارت کی ہے جس نے اپنی اولمپک ایسوسی ایشن کے معاملات میں مداخلت شروع کی تو آئی او سی نے اس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اسکی رکنیت کو معطل کر دیا تھا۔ اب بھارتی وزارت کھیل کی جانب سے آئی او سی کو اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ حکومت آئی او سی چارٹر کا احترام کرتے ہوئے اولمپک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی تاہم ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا کہ بھارت کی معطلی کو ختم کر دیا جائے اور اگر ایسا پاکستان کے ساتھ ہو گیا تو سب سے زیادہ نقصان پاکستانی کھیلوں کا ہوگا۔ ویسے سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے فیصلہ میں یہ بات واضح کر چکی ہے کہ سپورٹس پالیسی 2005ءکا اطلاق ان تمام کھیلوں کی تنظیموں پر ہوگا جو حکومت سے سالانہ گرانٹ حاصل کرتی ہےں اور یہ بھی واضح لکھا ہے کہ اس کا اطلاق پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پر نہیں ہوتا اس کے باوجود چند مخصوص افراد پر مشتمل ٹولہ بضد ہے کہ سپورٹس پالیسی کا اطلاق پی او اے پر بھی ہو جس کا سیدھا سیدھا مطلب ہے کہ پی او اے کے معاملات حکومت کے تابع ہو جائیں گے اگر ایسا ہو گیا تو لازمی ہے کہ انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کی جانب سے پاکستان کی رکنیت معطل ہو جائے گی تاہم پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے حکام تاحال اس کوشش میں مصروف ہیں کہ چند افراد کے غیر ذمہ دارانہ رویئے سے پاکستان پر پابندی عائد نہ ہو۔ خدا نخواستہ اگر پاکستان پر پابندی عائد ہو گئی تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوگا کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے عہدیدار ختم ہو جائیں گے بلکہ یہ ہوگا کہ بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کا نام استعمال نہیں کیا جا سکے گا جو انتہائی شرم کا مقام ہوگا۔ عبوری کمیٹی کے صدر آصف باجوہ کی جانب سے 32ویں نیشنل گیمز کے انعقاد کے لئے 28 جون کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ چھ ماہ کے اندر دو مرتبہ نیشنل گیمز کا انعقاد کرایا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب میڈیا میں ایسی باتیں بھی منظرِ عام پر آئی ہیں کہ حکومت پاکستان کی جانب سے ان کھیلوں کے انعقاد کے لئے 8 کروڑ روپے کی گرانٹ بھی جاری کر دی ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں پی او اے حکام کے زیر نگرانی ہونے والی نیشنل گیمز پر ڈیڑھ سے پونے دو کروڑ روپے اخراجات آئے تھے۔ عبوری کمیٹی ایسی کونسی نیشنل گیمز کرانے جا رہی ہے جس کا خرچہ سابقہ گیمز سے ساڑھے پانچ سو گنا زیادہ کیا جا رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پیسہ گیمز پر نہیں بلکہ ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ عبوری کمیٹی نے آئی او سی کی سخت وارننگ کے باوجود پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا ہے۔ اس شیڈول کے مطابق پی او اے کے اتنخابات 5 جولائی کو اسلام آباد میں منعقد ہونگے۔ آئی او سی کی وارننگ اور عبوری کمیٹی کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کے بعد عین ممکن ہے کہ آئی او سی جلد پاکستان کی رکنیت کو معطل کر دے، اگر ایسا ہوا تو اس کی تمام ذمہ داری عبوری کمیٹی کے حکام پر عائد ہوگی۔ دوسری جانب پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے حکام نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ عبوری کمیٹی کی جانب سے اٹھائے جانے والے غیر قانونی اقدامات کے خلاف آواز بلند کریں گے۔ پی او اے سے الحاق رکھنے والے تمام یونٹس کا اجلاس 8 جون کو لاہور میں طلب کر لیا ہے جس میں مستقبل کا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نے لاہور میں جو اجلاس طلب کیا ہے اسے ہرگز ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھانا چاہئے جس سے محاذ آرائی میں اضافہ ہوتا ہو بلکہ ملک میں قائم نئی حکومت کے حکام سے مل کر انہیں سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات سے باور کرائیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 8 مئی 2012ءکو جو فیصلہ دیا تھا اس کے بارے میں آگاہ کرے جس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ سپورٹس پالیسی کی شق جس میں عہدیداران کی مدت کا ذکر کیا گیا ہے اس کا اطلاق ان کھیلوں کی تنظیموں پر ہوگا جو حکومت سے سالانہ گرانٹ وصول کرتی ہیں جبکہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پر اس کوئی اطلاق نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں 15 فروری 2013ءکو اسلام آباد کی مقامی عدالت بھی اس بات کی توثیق کر چکی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پی او اے پر عہدے کی مدت کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ عبوری کمیٹی عدالتوں کا احترام کرنے کی بجائے منفی ہتھکنڈوں پر اتری ہوئی ہے جو انتہائی افسوس ناک امر ہے۔ پاکستان میں میاں نوازشریف کی زیر قیادت بننے والی نئی حکومت کو پہلے ہی ملک میں کئی چیلنج درپیش ہیں انہیں کھیلوں کے حوالے سے ہنگامی اقدامات اٹھانا ہونگے تاکہ پاکستان معطلی کی بدنامی سے بچ سکے اور اس سازش میں شریک لوگوں کے خلاف سخت ایکشن لیں۔