بلوچستان کا معاملہ
ہماری بدقسمتی نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ہم ایک قوم نہیں بن سکے اور اپنے آپ میں ہم نے صوبائیت مذہبی فرقہ پرستی اور قومیتوں کی بت پرستی جیسے تعصبات کے زہر اس قدر گھول رہے ہیں کہ اس سے آگے ہم کچھ دیکھ نہیں پا رہے یہاں تک کہ ہمیں یہ بھی نظر نہیں آ رہا کہ ہم اس ٹہنی کو کاٹنے کو لگے ہوئے ہیں جس پر ہمارا بسیرا ہے تو انہی تعصبات کی بنیاد پر اب بلوچستان میں وہ شورش برپا کر دی گئی ہے جس نے تمام اہل وطن کو پریشان کر رکھا ہے جبکہ دشمن بغلیں بجا رہے ہیں کہ (ان کے منہ میں خاک) پاکستان اب ٹوٹا کہ اب، اور جہاں تک بلوچستان کا یہ معاملہ ہے تو ہمیں بھی اس کا اعتراف ہے کہ ماضی میں اسے نظر انداز کیا گیا اور اس پر اس طرح توجہ نہیں دی گئی کہ اسے ترقی دے کر دوسرے صوبوں کے برابر لایا جاتا۔ ہمیں یہاں یہ بھی احساس اور ادراک ہے کہ اس کی ان محرومیوں کی وجہ جہاں نااہل حکومتیں اور کرپٹ اور مفاد پرست حکمران رہے، وہاں بڑی وجہ اس کا اپنا جغرافیہ یعنی زمینی حقائق ہیں اور وہ یہ کہ رقبے کے لحاظ سے یہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے تو آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا، تو یہی اس کی پسماندگی کا سبب بھی ہے اور یوں ملک بھر کی ترقی میں باقی صوبوں سے اس لئے بھی پیچھے رہا کہ اس کو آبادی کی بنیاد پر اسے جو ترقیاتی بجٹ ملا وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہی رہا۔ اور پھر یہ بھی اس قدر وسیع و عریض رقبے پر فاصلوں پرآباد چھوٹی چھوٹی بستیوں کی صورت میں دور دور پھیلی ہوئی آبادیوں میں کوئی بڑ ی تعلیمی درس گاہیں قائم نہ ہو سکیں تو یہاں کے لوگ اعلیٰ اور معیاری تعلیم سے یکسر محروم رہے تو قومی سطح پر بھی قومی معاملات میں ان کی شرکت اور عمل دخل نہ ہونے کے برابر رہا۔ جس سے ان میں محرومیوں کا احساس پیدا ہوا جو وقت کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتا گیا۔ مزید براں ہنرمند افراد، معیاری تعلیم کی کمی اور تعلیم یافتہ افرادی قوت کی قلت کی وجہ سے یہاں کے قدرتی وسائل کو بھی بروئے کار نہ لایا جا سکا۔ اگر ایسا کیا جاتا تو ہمیں یقین ہے ان معدنیات سے وابستہ صنعتیں قائم ہوتیں، کارخانے لگتے، کاروباری اور تجارتی مراکز اور بڑے شہر وجود میں آتے تو یہاں تعلیم، صحت اور روزگار جیسی بنیادی ضرورتوں کیلئے جدید سہولتیں اور ترقی کے امکانات بھی روشن ہو جاتے۔ مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ واضح رہے ریاست ہائے متحدہ امریکہ جب بطور مملکت وجود میں آیا تو اس کی بیشتر ریاستوں کی صورت حال بالکل ایسی ہی تھی جیسے ہمارے اس بلوچستان کی یعنی جہاں وہ قدرتی وسائل سے مالا مال تھیں وہاں انسانی آبادیوں کا شدید فقدان تھا تو امریکہ نے وہاں دنیا بھر کے لوگوں کی آمد کو خوش آمدید کہا اور سب کے لئے دروازے کھول دیئے تو جوق در جوق بیرونی ممالک سے لوگ وہاں پہنچے اور وہاں کے شہری بن گئے بلکہ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے تو ان لوگوں کی منجملہ محنتوں اورمشقتوں سے یہ ملک ترقیوں کی ایسی معراج پر پہنچا کہ یہ کرہ ارض پر سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقت ور ملک بن کر سامنے آیا اور آج دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں سے اٹھ کر لوگ امریکہ نہ پہنچے ہوں۔ بلوچستان کو بھی اگر ترقی دینا مطلوب و مقصود ہے تو اہل بلوچستان میں ایسی سوچ کو اجاگر کرنا لازم ہو گا اور یہ کیا بلکہ دکھ کی بات ہے کہ امریکہ کو ترقی دینے اور اس کی آبادکاری کیلئے غیر ممالک سے لوگ آ سکتے ہیں تو بلوچستان میں اپنے ہی ملک کے دوسرے صوبوں سے آنے والوں کو کیوں روکا جائے یا نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے جبکہ ہمارے مذہب میں بھی ایسے کسی تعصب کی گنجائش نہیں تو یہاں ہم یہ بھی باور کراتے چلیں کہ پاکستان میں بلوچستان کا وجود ایسے ہی ہے جیسے علامہ اقبال نے کہہ رکھا ہے موج ہے دریا میں، اور بیرون دریا کچھ نہیں یہاں اطمینان کی بات یہ ہے کہ اب اہل بلوچستان کو بھی اس بگاڑ کا شدت سے احساس ہو چکا ہے جس کا اظہار انہوں نے حالیہ انتخابات میں کیا ہے اور وہ ایسی قیادت سامنے لے آئے ہیں جن سے حالات میں بہتری لانے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ان انتخابات میں ناراض قوم پرست جماعتوں سمیت صوبے کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کا حصہ لینا بذات خود اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ حالات صوبے کی بہتری کی طرف جا رہے ہیں اللہ کرے ایسا ہی ہواور پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن رہے