• news

جنرل مشرف کا مستقبل ایک سوالیہ نشان!

یہ بالکل قدرتی و فطری سا سوال ہے جو آج لاتعداد اذہان میں کلبلا رہا ہے اس میں تجسس کی آمیزش بھی ہے اور اس میں اندازوں اور تخمینوں کی چاشنی بھی ہے وہ سوال ہے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کا کیا بنے گا کیا اسے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت آئین شکنی کے جرم کی سزا ملے گی یا بعض کھلی اور چھپی مصلحتیں اس کی رہائی کی راہ ہموار کر دیں گی سوچ کے ان زاویوں میں اور زیادہ گہرائی پیدا ہو گئی، جب ساٹھ ستر جونیئر فوجی افسروں نے (ق) لیگ کے جنرل سیکرٹری مشاہد حسین سے جنرل پرویز مشرف سے ہونے والے سلوک کو توہین آمیز قرار دیکر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ مشاہد حسین نے کیا جواب دیا خبر میں اس کی تفصیل نہیں ہے۔ بہرحال ان افسروں کو یہ بھی ضرور سوچ لینا چاہئے کہ ایک منتخب وزیراعظم کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ملک کے آئین کو جس طرح توڑا گیا یہ بھی اسی ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کی توہین ہے اور یہ اٹھارہ کروڑ عوام کسی دیار غیر سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ ان ہی کے باپ، بھائی، چاچے مامے، خالائیں بہنیں وغیرہ ہی ہیں۔ آرمی چیف کی توہین کے حوالے سے حساسیت کا اظہار بالکل بجا لیکن ان کے اپنے قرابت داروں یا ہم وطنوں کی توہین کا بھی احساس کر لیا جائے تو ایک بہتر توازن پیدا ہو سکتا ہے۔ آرمی چیف کیا پوری فوج، قوم کی آنکھوں کا تارا رہی ہے کوئی ملک دشمن ہی فوج کا بدخواہ ہو سکتا ہے کیا جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف کے علاوہ کوئی آرمی چیف عوامی سطح پر تنقید اور ناپسندیدگی کا نشانہ بنا ہے کیا جنرل موسیٰ خان یا جنرل عبدالحمید، جنرل ٹکا خان، جنرل اسلم بیگ یا جنرل جہانگیر کرامت کے بارے میں کسی نے ایک لفظ ادا کیا ہے جسے توہین آمیز کہا جا سکے۔ کیا جنرل اشفاق پرویز کیانی کی عزت و احترام میں عوامی سطح پر کسی نوع کی کمی بیشی کا مظاہرہ ہوا ہے بلکہ جنرل کیانی کے کردار نے تو آج فوج کے اس مرتبہ و وقار کو بحال کر دیا ہے جسے جنرل پرویز مشرف کے کرتوتوں نے بری طرح مجروح کر دیا تھا۔ اسے خوشامد نہ سمجھا جائے یہ عاجز مسلسل آٹھ سال جنرل پرویز مشرف کے خلاف لکھتا رہا ہے جب اس کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا۔ یہ خوشامد نہیں جنرل کیانی کے جمہوریت نواز رویہ کا اعتراف ہے۔ بات شروع ہوئی تھی جنرل مشرف کے مستقبل کے حوالے سے پیدا شدہ سوال کی اس سلسلے میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سچے پاکستانی جناب محمود خان اچکزئی کی ان باتوں پر غور کرنا چاہئے کہ کیا12 اکتوبر 1999ءکی شام آئین پاکستان پر جو شب خون مارا گیا اس میں جنرل پرویز مشرف تنہا ملوث تھا کیا اس غیر آئینی اور غیر قانونی عمل میں معاونت کرنے والے اس کے ساتھی بھی اتنے ہی گناہ گار ہیں کیا جنرل مشرف کے خلاف ظفر علی شاہ کی رٹ درخواست پر فیصلے میں اسے آئین شکن قرار دینے کی بجائے اسے تین سال تک آئین میں ترمیم جیسا انوکھا اختیار دینے والے سپریم کورٹ کے جج بھی اتنے ہی قصور وار ہیں۔ کیا مشرف آمریت کو سیاسی بیساکھیاں فراہم کرنے والے سیاستدان بھی اتنے ہی گناہ گار قرار پائیں گے۔ کیا یہ سب اپنے اپن اعمال کے حوالے سے مستوجب سزا ہوں گے کیا ان سب کے خلاف کارروائی ایسے وقت میں ممکن ہے جب کہ ملک داخلی اور خارجی طور پر سنگین مسائل کا شکار ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو آئین شکنی کی سزا ضرور ملنی چاہئے اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ آرٹیکل 6 کے حوالے سے صوتحال واضح کر دے اور حکومت کو اس آئینی شق پر عمل درآمد کا پابند کر دے جنرل مشرف کو سزا دی جائے چاہئے اس کے ایک گھنٹہ بعد صدر آصف زرداری آرٹیکل 45 کے تحت یہ سزا معاف کر کے اسے جلاوطن کر دیں۔ جہاں وہ شرابیں پیئے یا اپنے دیگر معروف مشاغل میں مصروف رہے۔ میری ذاتی رائے ہے فی الحال بعض حلقوں کے لئے یہ پیغام کافی ہے۔ انہیں بھی سمجھ آ جانی چاہئے کہ وقت کا پہیہ ہمیشہ آگے چلتا ہے 17 اکتوبر1958ءمیں عوام کے شعور کی سطح جہاں تھی آج 2013 ءمیں اس سے کہیں زیادہ بلند ہے پاکستان کے ہر مسلمان کو وہ فوجی ہو یا غیر فوجی یہ فرمان نبوتﷺ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ فاطمہؓ بنت محمدﷺ بھی چوری کرے گی تو ہاتھ کاٹے جائیں گے اور پہلی قومیں اس لئے تباہ ہو گئیں کہ بااثر لوگوں کو چھوڑ دیا جاتا اور عام لوگوں کو سزا دے دی جاتی تھی۔ 

ای پیپر-دی نیشن