بغاوت چھوڑ دی میں نے؟
عمران خان نے جتنا برا جاوید ہاشمی کے ساتھ کیا ایسا تو نواز شریف سوچ بھی نہیں سکتے۔ کوئی خاص اچھا تو انہوں نے بھی ”باغی“ کے ساتھ نہیں کیا مگر سنا ہے کہ عمران خان نے گھر بلا کے جاوید ہاشمی کی بڑی بے عزتی کی۔ یہ کم ظرفی کی انتہا ہے۔ دوسری جماعت کے پارٹی لیڈر کو لیڈر کہہ دینا ایسا جرم بھی تو نہیں کہ اسے ظلم بنا دیا جائے۔ جاوید ہاشمی کے لئے میرے دل میں ساری عزت خاک میں مل گئی ہے۔ ایسے موقعوں پر دل میں بھی خاک ہی اڑتی ہے۔ اسے کیا ضرورت تھی اپنی بات واپس لینے کی۔ اتنا دل نہ تھا تو وہ یہ بات نہ کہتا۔ کہہ دی تھی تو واپس نہ لیتا۔ نانی نے کھسم کیتا برا کیتا کرکے چھڈیا ہور برا کیتا۔ اس جملے میں صرف ایک لفظ کے ترجمے کی ضرورت ہے۔ کھسم کا مطلب شوہر ہے۔ جسے شوفر بھی کہتے ہیں اور شوہر نامدار بھی۔
میں نے پورا کالم جاوید ہاشمی کی دلیرانہ رواداری اور جرات اظہار پر لکھا۔ جو انکار نہیں کر سکتا وہ اقرار بھی نہیں کر سکتا۔ جرات انکار کی طرح جرات اقرار بھی ضروری ہے۔ برسوں جاوید ہاشمی مسلم لیگ میں رہے۔ برادرم انعام اللہ خان کا برا حشر ہوا۔ اس کی ذمہ داری بھی حفیظ اللہ نیازی پر ہے۔ مسلم لیگ ن نے ہی جاوید ہاشمی کو باغی بنایا۔ مگر اب برادر کالم نگار اثر چوہان نے لکھا ہے کہ وہ بچپن سے باغوں میں آوارہ گردی کا شوقین تھا اور اس وجہ سے باغی مشہور ہو گیا۔ اب تو وہ باغی بدنام ہو گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ نواز شریف نے جاوید کے اس جملے سے کوئی خاص خوشی محسوس نہ کی ہو گی اور اس جملے کی واپسی پر بھی کوئی عام افسوس نہ کیا ہو گا۔ مگر عمران خان نے بنیادی مروت اور سیاسی روداری اور خاندانی وضعداری کا خیال نہ رکھا۔ فوراً ہی جاوید ہاشمی کو اس کی اوقات یاد دلا دی- جاوید کو بھی اپنی اوقات یاد آ گئی۔ اسے یہ سزا بھی دے دی گئی کہ شاہ محمود قریشی کو ڈپٹی پارلیمانی لیڈر بنا دیا گیا۔ جاوید کی حیثیت پھر وہی ہو گی جو چودھری نثار کے قائد حزب اختلاف بننے کے بعد ہوئی تھی۔ خدا کی قسم جو کچھ شاہ محمود قریشی ابھی اور جاوید کے ساتھ کرے گا۔ اسے احساس ہو گا کہ چودھری نثار تو اس کے لئے بہت اچھا تھا۔ اندرونی سیاست تو میں نہیں جانتا مگر چودھری نثار نے ذاتی طور پر جاوید ہاشمی سے خاص برائی نہ کی ہو گی۔ جاوید ہاشمی بہت جذباتی آدمی ہے۔ دوستی میں جذبات کا اظہار اس طرح نہیں ہوتا جو دشمنی میں ہوتا ہے۔ مگر جب آدمی سمجھ لے کہ اسے اس کا حق نہیں ملا تو پھر کبھی اسے اپنا حق نہیں ملتا۔ یہ بھی نہیں کہ آدمی سمجھے حق وہ ہے جو میرے حق میں ہے تو کیا بغاوت صرف مسلم لیگ ن میں کی جا سکتی تھی۔ تحریک انصاف میں باغی کے جنونی نعرے بازوں نے انٹرنیٹ پر دھوم مچا دی کہ عمران خان نے جاوید ہاشمی کی بغاوت کچل دی۔ جاوید ہاشمی نے بھی اعلان کیا کہ بغاوت چھوڑ دی میں نے۔ پریس کانفرنس کے وقت باغی کے سامنے میز پر دو گھوڑے موجود تھے بغیر شہسوار کے گھوڑے کیا ہوتے ہیں۔ ان پر تو دولہا بھی نہیں تھا۔
میرا خیال ہے کہ جاوید ہاشمی نوابزادہ نصراللہ بننا چاہتے ہےں۔ اپنی چھوٹی سی جماعت میں رہتے ہوئے نوابزادہ صاحب سب پارٹی والوں کے لئے قابل قبول تھے۔ وہ بڑے دل کے بڑے سیاستدان تھے۔ چھوٹے دل و دماغ والے جاوید ہاشمی یہ مرتبہ حاصل نہیں کر سکتے۔ میرے قابل قدر بھائی ممتاز اقبال ملک کے بقول لیاقت بلوچ کے اندر نوابزادہ نصراللہ بننے کی پوری اہلیت اور امانت موجود ہے۔ وہ جماعت اسلامی کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے اپنے نظریات اور پارٹی موقف پر کمپرومائز نہ کرتے ہوئے سب لوگوں کی شادی غمی میں شرکت کرتے ہیں۔ سب ان کی عزت کرتے ہیں اور پیار کبھی بھی اعتبار کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتا۔ جماعت اسلامی کے دوست ان کو اعتماد اور احترام کے قابل سمجھتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی انہیں یہی مقام دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے لئے لیاقت بلوچ ایک نعمت کی طرح ہیں۔ جاوید ہاشمی بھی تو جماعت اسلامی سے گئے ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی میں لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ کے بعد صدر سٹوڈنٹس یونین تھے۔ لیاقت بلوچ ایک سنجیدہ اور شائستہ سٹوڈنٹ لیڈر تھے۔ احسن اقبال بھی جماعت اسلامی کے آدمی ہیں مگر مسلم لیگ ن سے جانے کے بعد تیسری پارٹی میں خوبیاں خرابیاں بنتے بنتے رہ جاتی ہیں۔
جاوید ہاشمی کو جماعت اسلامی نہیں چھوڑنا چاہئے تھی اور پھر مسلم لیگ ن تو بالکل نہیں چھوڑنا چاہئے تھی۔ جماعت اسلامی میں بھی جاوید اپنے لئے کسی نہ کسی کو چودھری نثار بنا لیتے۔ چودھری نثار نے کہا کہ ن لیگ میں اس سے بڑھ کر باتیں جاوید ہاشمی کر جاتے تھے مگر ہم نے اور نواز شریف نے نظرانداز کیا۔ پوری ن لیگ تحریک انصاف کی طرح ہاتھ دھو کے ان کے پیچھے نہیں پڑ جاتی تھی۔ جاوید ہاشمی نے ن لیگ میں رہتے ہوئے پارٹی لائن کے خلاف ایوان کے اندر اور باہر دھواں دھار بیانات دئیے۔ مختلف اور مخالف پارٹیوں کے جلسوں اور دھرنوں میں شریک ہوئے۔ ہم نے تو کچھ نہ کیا مگر اب تو ان کی ساری سیاسی ساکھ ہی راکھ میں اڑا دی گئی۔
غلام مصطفیٰ کھر نے مسلم لیگ ن جائن کی۔ جاوید ہاشمی نے زبانی کلامی بغاوت کا اعلان کیا۔ کلثوم نواز نے جدہ سے فون کیا۔ جاوید نے نہ سنا۔ پھر انہیں پکڑ کے اندر لے جایا گیا۔ معلوم نہیں کہ بیگم صاحبہ اور ”باغی“ کے درمیان کیا بات ہوئی۔ جاوید ہاشمی کی بغاوت لاڈ پیار میں چلتی ہے۔ تحریک انصاف والوں نے ان کے سارے ”کس بل“ نکال دئیے ہیں۔ یہ ان کے ساتھ بے انصافی ہے۔ بے انصافی کے خلاف بغاوت باغی کے بس میں نہیں ہے۔ میں نے جو ان کے حق میں کالم لکھے واپس نہیں لوں گا مگر محترم مجیب الرحمن شامی وہ نعرہ تو واپس لیں جو ان کے دفتر میں بنایا گیا تھا۔ ایک بہادر آدمی۔ ہاشمی ہاشمی۔ وہ برادرم ریاض مجید کا یہ شعر بھی پڑھنے کے قابل نہیں رہے:
میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
مسلم لیگ ن کے پرویز رشید نے کہا ہے کہ بھٹو آج بھی میرا لیڈر ہے اور میں یہ بات کبھی واپس نہیں لوں گا۔ وہ پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ ن میں آئے ہیں۔
مجھے یاد آیا ہے کہ جاوید ہاشمی کوٹ لکھپت جیل میں تھے۔ ناصر اقبال خان اور میں ان سے ملنے جاتے تھے۔ ہم نے کالم بھی لکھے۔ کالم تو میں نے قیدی زرداری صاحب کے لئے بھی لکھے تھے؟ پھر وہ نہ قائد بن سکے اور نہ قیدی ہونے کا احساس ان میں باقی رہا۔ جاوید ہاشمی کی بیٹی کی شادی تھی۔ بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔ جاوید باغی نے پیرول پر رہا ہونے کی درخواست لکھنے سے انکار کر دیا۔ مجھے بیٹی نے فون کیا کہ کچھ ایسا کرو کہ ابا میری شادی میں شریک ہوں۔ میں نے بیٹی سے کہا کہ تمہارا یہ چچا کالم تو لکھ سکتا ہے حکمرانوں سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں نے لکھا حکمرانوں کو یہ بات دل سے نکال دینا چاہئے کہ جاوید کوئی درخواست لکھے گا۔ اس نے تو جنرل مشرف سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔ حکومت اسے اغوا کرکے بیٹی کی شادی کے شامیانے میں لے جائے اور اس کے بعد واپس لے آئے۔ مجھے ملتان ائرپورٹ سے جاوید نے فون کیا کہ جس طرح تم نے کالم میں لکھا تھا میرے ساتھ حکومت نے ایسا ہی کیا ہے۔ مجھے بیٹی کے شکرئیے کے فون کا زیادہ مزا آیا۔ یہ شکریہ اضافی ہے کہ ہماری تہذیب ہمیں یہ سکھاتی ہے ہم بیٹیوں کے نوکر ہیں۔
اس طرح کے دلیرانہ روئیے نے ہمیں جاوید ہاشمی کا عاشق بنا دیا تھا۔ تعلق اور محبت حساب کتاب میں نہیں پڑتی۔ جاوید کو تو یہ بھی بھول گیا ہو گا کہ جیل کے دنوں میں ہمیشہ کھانا شریف فیملی کے گھر سے انہیں جاتا تھا۔ ہم بھی کئی بار اس کھانے میں شریک ہوئے تھے۔ جاوید جانتا ہے کہ میں نواز شریف سے اختلاف بھی کرتا ہوں مگر اختلاف کرنے کا حق اسے ہے جو اعتراف کرنا بھی جانتا ہو۔ حافظ حسین احمد نے عجب بات کی ہے کہ جاوید کا یہ بیان کبھی نہ کبھی ان کے کام آئے گا؟ یہ بھی غلط ہے کہ جاوید کی فیملی نے ان پر دباﺅ ڈالا ہے۔ میں نے ان کے جیل کے دنوں میں بیٹیوں کی ثابت قدمی دیکھی ہے۔ وہ نوائے وقت میں بہادر صحافی پاسبان جرات اظہار مجید نظامی کا شکریہ ادا کرنے آئی تھیں۔ جاوید ہاشمی کے بیان واپس لینے پر بیٹیاں رنجیدہ ہوں گی۔ جاوید ہاشمی کو نواز شریف کے مقابلے میں الیکشن لڑنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ شاہ محمود قریشی کبھی نواز شریف سے اختلاف نہیں کرےں گے اور عمران خان کو بھی راضی رکھےں گے۔ جاوید ہاشمی تحریک انصاف کے مخدوم امین فہیم بن کے رہ گئے ہےں۔ پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ قائد حزب اختلاف ہےں سیاسی لوگ سوچتے کیوں نہیں کہ کیا چیز کس وقت ان کے لئے موزوں ہے۔ جاوید ہاشمی قومی اسمبلی کی رکنیت چھوڑ دیتے مگر اپنی بات واپس نہ لیتے۔ ایک بات کالم نویس بٹ نے کی ہے کہ جاوید ہاشمی کے جملے کے حق میں کالم لکھنے والے اجمل نیازی اس سے اتنا تو پوچھیں کہ اپنے لیڈر کے خلاف الیکشن لڑتے ہوئے شرم کیوں نہ آئی۔ اب میں اس کا جواب کیا دوں اصل جواب تو جاوید ہاشمی کے پاس ہے؟ پیپلز پارٹی کے مخلص ورکر ارشاد علی بھٹی سے کوئی پوچھ رہا تھا کہ جاوید ہاشمی آصف ہاشمی کے کیا لگتے ہیں!