تنخواہیں اگلے سال بڑھیں گی‘ 5 سال میں غربت ڈبل ہو گئی‘ امرا کو ٹیکس ادا کرنا ہو گا‘ ملک کو اس کی ضرورت ہے: اسحاق ڈار
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + نوائے وقت رپورٹ + نیٹ نیوز) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اقتصادی بحالی کے لئے تین سالہ اہداف کا اعلان کر دیا ہے۔ 30 جون 2016ءتک 14 ہزار ارب روپے سے زائد کے مجموعی قرضوں میں 8.3 فیصد کمی کریں گے ۔ مالیاتی خسارے کو ساڑھے آٹھ فیصد سے کم کر کے چار فیصد تک لایا جائے گا۔ گذشتہ 5 سال میں غربت دوگنا ہو گئی ہے۔ وزیراعظم کا چالیس ارب روپے سے زائد صوابدیدی فنڈ ختم کر دیا گیا ہے۔ غریب اور مستحق خاندانوں کے لئے چالیس ارب روپے کے امدادی فنڈ کو بڑھا کر 75 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ صدر و وزیر اعظم، چیف آف آرمی سٹاف کسی کو ڈیوٹی فری گاڑی درآمد کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ استثنیٰ واپس لے لیا گیا ہے۔ پاکستان کو ٹیکسوں کی ضرورت ہے اور اسے یہ ٹیکس ملنے چاہئیں۔ ٹیکس دائرے میں آنے والوں کی نشاندہی کر لی، ٹیکس وصولی یقینی بنائی جائے گی، کوئی دبا¶ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ 202 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے سے سرکلر ڈیٹ کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ ایک ایک پیسے کی امین کے طور پر حفاظت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ صاحب ثروت حضرات کو ٹیکس ادا کرنا ہو گا، حصص، نقد رقوم، بڑی گاڑیوں اور امرا پر اگر ٹیکس عائد ہوتا ہے تو انہیں ٹیکس دینا چاہئے۔ ہیرو بننے اور تعریفوں کے لئے مقبول اقدامات نہیں کریں گے۔ 34 وزارتوں، اداروں اور محکموں کے خفیہ فنڈز ختم کرنے کا حکم نامہ جاری ہو چکا ہے۔ اے جی پی آر کو تمام خفیہ فنڈز قومی خزانے میں جمع کرانے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ کسی کو پاکستان سے نہیں کھیلنے دیں گے۔ تین ہزار سے زائد دولت مندوں پر تیس فیصد میں ضرور اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صاحب ثروت طبقات سے کہا ہے کہ وہ ٹیکس بروقت ادا کریں تاکہ اقتصادی مسائل کا خاتمہ یقینی بنایا جا سکے۔ اللہ تعالی کی ذات پر ہی بھروسہ ہے، پاکستان ہی میری طاقت ہے۔ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ معاشی بحالی کے لئے ایڈہاک ازم نہیں درست سمت کا تعین کر رہے ہیں۔ آئندہ مالی سال میں مہنگائی آٹھ فیصد رہے گی، تین سال تک یہی شرح برقرار رہے گی۔ آئندہ مالی سال میں انویسٹمنٹ ٹو جی ڈی پی 14.9 فیصد تک لائیں گے ۔ رواں سال ترسیلات زر چودہ ارب دس کروڑ ڈالر متوقع ہیں۔ آئندہ مالی سال میں پندرہ ارب ڈالر کا ہدف مقرر کیا گیا ہے اور 2016ءتک ترسیلات زر کا ہدف بیس ارب ڈالر ہے، مالیاتی خسارہ ساڑھے آٹھ فیصد ہے آئندہ مالی سال میں اسے 6.3 فیصد تک لائیں گے اس کے اگلے سال 1.3 فیصد کم کریں گے اور 2016ءتک یہ خسارہ چار فیصد تک لانے کا ہدف ہے۔ قرضوں کے حوالے سے صورت حال انتہائی سنگین ہے سابقہ حکومتوں نے قرضہ لینے کے لئے ایکٹ آف پارلیمنٹ کی خلاف ورزی کی، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 63.5 فیصد تشویش ناک حد پہنچ گئی ہے انہوں نے کہا کہ معیشت کا اصل مسئلہ قرضوں کی یہی بیماری ہے۔ جی ڈی پی کے مطابق ساٹھ فیصد سے زیادہ قرضے حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ آئندہ مالی سال میں اس میں 2.2 فیصد کمی لا کر 61.3 فیصد اور 30 جون 2016ءتک یہ قرضے جی ڈی پی کے مطابق 55.2 فیصد لائیں گے۔ سالانہ فی کس آمدنی 1356 ڈالر ہے۔ نئے مالی سال میں اس میں سو ڈالر اضافے کا ہدف ہے۔ مجموعی قومی پیداوار کا ہدف 4.4 فیصد ہے 2016ءتک اسے سات فیصد تک لے جائیں گے۔ شروع دن سے معاشی ویژن کے تحت صحیح سمت کی جانب گامزن ہو گئے ہیں ۔ معاشی بحالی کا روڈ میپ بنا دیا ہے۔ محاصل کے لئے 2475 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ جاری اخراجات میں صرف چار فیصد اضافہ کیا ہے۔ حکومتی آمدن کا انحصار محاصل پر نہیں ہو گا وزیر اعظم ہاﺅس اور وزیر اعظم آفس دونوں کے اخراجات 44 فیصد کم کر دئیے ہیں۔ سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام کو وسعت دی گئی ہے۔ وزرا کی صوابدیدی گرانٹ بھی ہمیشہ کے لئے ختم کر دی گئی ہے تین سال میں مہنگائی کی شرح آٹھ فیصد رہے گی۔ ڈیوٹی فری گاڑیوں کے استثنیٰ کو ختم کرنے کے لئے لوگوں کی ٹانگیں کانپتی تھیں ۔ بدقسمتی سے 2005ءسے دوبارہ کئی وی وی آئی پیز کو رعایت دی گئی۔ صدر، وزیراعظم، وزرا اعلیٰ، چیف آف آرمی سٹاف سمیت تمام کے حوالے سے یہ استثنیٰ ختم کر دئیے گئے ہیں۔ بہتر طرز حکمرانی شفافیت، دیانتداری، اختیارات کے ناجائز استعمال کے سدباب اور دیگر ٹھوس اقدامات کے نتیجے میں 730 ارب روپے بچائے جا سکتے ہیں۔ ایک ایک پیسے کی امین کے طور پر حفاظت کریں گے۔ خزانہ امانت ہے۔ کفایت شعاری اور سادگی کے اقدامات سے 40 ارب روپے کی بچت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ پنک بک کو چیک کیا جا سکتا ہے۔ تمام خفیہ فنڈز جو کہ 34 مختلف وزارتوں، اداروں اور محکموں میں استعمال ہو رہے تھے کو ختم کر دیا گیا ہے۔ حسابات میں جو رقوم بچ گئی تھیں اے جی پی آر کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ انہیں جاری نہ کریں اور انہیں واپس قومی خزانے میں جمع کرایا جائے۔ ہر وزیر کا صوابدیدی فنڈ ختم ہو گیا ہے حاجیوں پر نہیں بلکہ حج ٹور آپریٹرز پر انکم ٹیکس میں اضافہ کیا ہے اور 2000 روپے سے اضافہ کر کے ساڑھے تین ہزار کر دیا گیا ہے۔ ملک کے 3114 دولت مندوں پر تیس فیصد ٹیکس میں ضرور اضافہ کیا ہے۔ قطرہ قطرہ جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی پہلے بھی سترہ فیصد ہی تھا۔ غریب اور مستحق خاندانوں کی امداد کے بجٹ کو چالیس ارب روپے سے بڑھا کر 75 ارب کر دیا گیا ہے انکم سپورٹ لیوی کی رقم محاصل میں نہیں بلکہ براہ راست اس امدادی پروگرام میں جائے گی۔ اسی طرح نان کارپوریٹ میں انفرادی طور پر ساٹھ لاکھ سے زائد آمدنی کمانے والوں پر پنتیس فیصد ٹیکس لگایا گیا ہے۔ چار ہزار سے زائد ان لوگوں کو ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ ہم نے دولت مندوں نہیں ساڑھے اٹھارہ کروڑ عوام کو دلدل سے نکالنا ہے۔ صرف وزیر اعظم اور میں پورے ملک کو ٹھیک نہیں کر سکتے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نقصانات کے تخمینہ کے لئے کمیٹی بنا دی ہے۔ قوم کو آگاہ کریں گے۔ کم سے کم پنشن کو تین ہزار سے بڑھا کر پانچ ہزار روپے کر دیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئندہ سال ضرور سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ ہو گا اور اس سال کا بھی مداوا کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ نوٹ چھاپ کر تنخواہوں میں اضافہ نہیں کر سکتے مالیاتی نظم و ضبط ضروری ہے پہلے ہی تین ماہ قبل اضافہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کولیشن سپورٹ فنڈ سے پاکستان کی رقم وصول کرنا ترجیحی ایجنڈا ہو گا، فی کس آمدنی رواں سال 1366 ڈالر ہے، آئندہ سال اسے 1450 ڈالر فی کس پر لایا جائے گا۔ بجٹ کے باعث سٹاک مارکیٹ پر اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سرکلر ڈیٹ ادا ہونے سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ آئی اےم اےف کے ساتھ بات چےت قومی مفاد اور ہماری شرائط کے تحت ہو گی، قومی مالےاتی ادارے کی ٹےم انےس جون کو پوسٹ پروگرام رےوےو کے لئے پاکستان آئی گی، سرکاری ملازمےن کو مارچ مےں 20 فےصد اضافہ دےا گےا تھا، مالی سال کے دوران اگر مسائل پےدا ہوئے تو انہےں پےش نظر رکھتے ہوئے اس معاملے پر ازسرنو غور کےا جائے گا، کھانے پےنے کی اشےا پر کوئی ٹےکس عائد نہےں کےا گےا، جی اےس ٹی مےں اےک فےصد اضافہ ان اشےا پر کےا گےا ہے جو عام آدمی کے استعمال مےں نہےں آتےں، بجٹ مےں پانچ لاکھ نئے ٹےکس گذار نےٹ مےں لانے کا ہدف رکھا ہے، ہم نے امےروں پر ٹےکس لگاےا ہے خواہ کچھ بھی ہو جائے معےشت کو درست راستے پر ڈالا جائے گا، کوئی دباو¿ قبول نہےں کےا جائے گا، بجٹ خسارہ کو رواں سال اڑھائی فےصد اور اگلے سال اس مےں مزےد 1.3 فےصد کمی لائی جائے گی، رمضان المبارک مےں ےوٹےلٹی سٹورز کو سستی اشےا کی فراہمی کے لئے دو ارب روپے سبسڈی دی جائے گی، پاور سرکل کا سرکلر دےٹ ختم کرےں گے، اتصالات سے آٹھ سو بلےن ڈالر کی رقم لےنے کے لئے اقدامات کئے جائےں گے، کولےشن سپورٹ فنڈ سے پاکستان کی رقم وصول کرنا ترجےحی اےجنڈا ہو گا، اقتصادی بحالی کے لئے تین سالہ اہداف مقرر کر دئیے ہےں۔ 30 جون 2016ءتک 14 ہزار ارب روپے سے زائد کے مجموعی قرضوں میں 8.3 فیصد کمی کریں گے۔ مالیاتی خسارے کو ساڑھے آٹھ فیصد سے کم کر چار فیصد تک لایا جائے گا۔ وزیراعظم کا چالیس ارب روپے سے زائد صوابدیدی فنڈ ختم کر دیا گیا ہے۔ غریب اور مستحق خاندانوں کے لئے چالیس ارب روپے کے امدادی فنڈ کو بڑھا کر 75 ارب کر دیا گیا ہے۔ صدر و وزیراعظم، چیف آف آرمی سٹاف سمیت کسی کو ڈیوٹی فری گاڑی درآمد کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ایک ایک پیسے کی امین کے طور پر حفاظت کریں گے۔ 34 وزارتوں، اداروں اور محکموں کے خفیہ فنڈز ختم کرنے کا حکم نامہ جاری ہو چکا ہے۔ اے جی پی آر کو تمام خفیہ فنڈز قومی خزانے میں جمع کرانے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ کسی کو پاکستان سے نہیں کھیلنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کو کسی کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننے دینگے، درست معاشی سمت کا تعین کر دیا ہے، آئندہ تین سال میں تبدیل شدہ پاکستان دیکھنے کو ملے گا، کسی کی ڈکٹیشن پر نہیں بلکہ ملک وقوم کے مفاد کومدنطر رکھ کر اپنی شرائط پر قرضے لیں گے، 5 لاکھ نئے ٹیکس دہندگان سے ٹیکس وصول کیا جائے گا، گردشی قرضے کے خاتمے سے لوڈ شیڈنگ میں کمی کا آغاز ہو جائے گا، اشیائے ضروریہ پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا، 16 وزارتوں سمیت 34 اداروں کے سیکرٹ فنڈز پر پابندی عائد کر دی گئی، حکومتی اخراجات میں 30 فیصد کی کفایت شعاری سے 40 ارب روپے کی بچت ہو گی، حاجیوں پر ٹیکس لگانے کا تاثر درست نہیں، بلوچستان کے حالات ٹھیک کرنے کیلئے دلیرانہ فیصلے کرنے ہونگے، تھری جی لائسنس کی نیلامی شفاف طریقے سے ہو گی، 2016ءتک مالیاتی خسارہ 4 فیصد تک لائینگے۔ بی بی سی کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد بڑھی اور ان کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد بڑھتی ان افراد کو سہارا دینے کے لئے ملک کے صاحب حیثیت افراد کو ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ ویلتھ ٹیکس لیوی سے حاصل ہونے والی رقم کسی اور مد میں خرچ نہیں کی جائے گی، اس رقم سے حال ہونے والی آمدن مستحق افراد کو ماہانہ وظیفے کی صورت میں دی جائے گی۔ حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مستحق افراد کی مدد کے لئے سوشل سکیورٹی پروگرام کے لئے 75 ارب رکھے گئے ہیں، آئندہ مالی سال میں مستحق افراد کا ماہانہ وظیفہ ایک ہزار روپے سے بڑھا کر 1200 روپے کر دیا گیا ہے۔ قرضے ملک کے معاشی مسائل کی بڑی وجہ ہے، پاکستان میں قرضوں کی مجموعی شرح خام ملکی پیداوار کے 60 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ غیر ملکی اور ملکی قرضے جی ڈی پی کا 63.5 فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔ حکومت قرضوں میں کمی کرے گی، اسے کم کر کے جی ڈی پی کے 61.5 فیصد تک لایا جائے گا۔ ان کے دور میں قرض چکانے کے لئے مزید قرض نہیں لیا جائے گا۔ صرف ملکی میعشت کی بہتری کے لئے ایسی شرائط پر قرض لیا جائے گا جو ملک کے مفاد میں ہو۔ فکسل ڈیٹ لیمٹیشن قانون کے تحت مجموعی قرظوں کا حجم جی ڈی پی کے 60 فیصد سے تجاوزر نہیں کر سکتا۔ سابق حکومت نے قانون کی خلاف کی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہ نہ بڑھانے پر وزیر خزانہ کا کہنا تھا ہمیں معاشی سمت درست کرنا ہے، معاشی سمت بہتر ہو گئی تو جن لوگوں کو ابھی کچھ نہیں دے سکے آئندہ ان کا خیال رکھیں گے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت معاشی شرح نمو کو سات سے آٹھ فیصد تک لانے کے لئے کوشاں ہے۔ بجٹ میں کئے گئے اقدامات سے چالیس ارب روپے کی بچت ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت صرف زرعی آمدنی کو ٹیکس سے استثنیٰ دے گی جس پر صوبوں کو باقاعدہ زرعی ٹیکس ادا کیا گیا ہو گا۔ حکومت بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کو اولین ترجیچ دیتی ہے۔ انہوں نے کہا معاشی حالات سب کے سامنے ہیں، انہیں صحیح کرنے کے لئے قربانیاں دینا پڑیں گی، دنیا کے کئی ممالک میں 60 فیصد تک انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، 7 جون کو حلف اٹھا کر 12 جون کو بجٹ پیش کرنا آسان کام نہیں تھا۔