”بجٹ اچھّا ہے ....پَر ، چُونکہ،چُنانچہ!“
ہر قومی بجٹ۔اعداد و شمار کی، نثری شاعری کا نمونہ ہوتا ہے۔وزیرِاعظم نواز شریف کے پہلے دَور میں ، مَیں نے تجویز کِیا تھا کہ ۔اگر وزیرِخزانہ اپنی بجٹ تقریر۔ ترنّم سے پڑھ دِیا کریں تو،کم ازکم موسیقی سے رغبَت رکھنے والے،حزبِ اختلاف کے ارکان۔وزیرِخزانہ کو، Hoot نہیں کِیاکریں گے اور اگر کریں گے بھی تو، عوام اُنہیں بدذوق قرار دے کر، آئندہ انتخابات میں مسترد کر دیں گے ،لیکن اِس تجویز کو، اہمیت ہی نہیں دی گئی ۔یہاں تک موسیقی کے دِلدادہ اور سُرتال کے ماہر، جنرل پرویز مشرّف کے،9سالہ دَور میں بھی نہیں ۔جناب محمد اسحق ڈار نے بھی اپنی بجٹ تقریر ،تحت اُللفظ پڑھی اور سابقہ وزرائے خزانہ سے زیادہ تیز رفتاری سے۔یہ بات مجھے ،ا پریل2000ءمیں ، سابق وزیر اور ججّ اور مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے، نامور وکیل جناب خالد رانجھا نے بتائی کہ ۔” جب مَیں قانون کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے انگلستان گیا تو، مَیں نے وہاں۔" "Speed Reading۔(تیز رفتاری سے پڑھنے) کا کورس بھی کِیا تھا اور پھِر مَیں نے یہ کورس امریکہ میں پڑھایا بھی “۔ممکن ہے ڈار صاحب نے بھی یہ کورس کر رکھا ہو!۔
ڈار صاحب کو وزیرِخزانہ بنے ،جمعہ جمعہ آٹھ دِن بھی نہیں ہُوئے ۔ موصوف نے،7جون کوحلف اٹھا یا اور12جون کو، بجٹ بھی پیش کر دیا ۔دراصل وزیرِخزانہ ہو یا نہ ہو، لیکن وزارت ِخزانہ تو، ایک مستقل ادارہ ہے اور اُس کے اعلیٰ افسروں کو، عِلم ہوتا ہے کہ،بجٹ تیار کرتے وقت ، عالمی بنک ،آئی۔ایم ۔ایف اور دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو، ناراض نہ کرتے ہُوئے ۔” قومی مُفادات “۔ کا کیسے خیال رکھا جاتا ہے؟۔قومی بجٹ تو، نگران حکومت یا اُس سے پہلے کی حکومت کے دَور میں ہی، تیار ہونا شروع ہو گیا تھا ۔کسی ۔”فارمولا پنجابی فِلم “۔کی طرح۔” فارمولا بجٹ“۔کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ حکومت،جِس پارٹی کی بھی، قائم ہوجائے ،بجٹ اُسی کا ہو جاتا ہے۔ اِس طرح اقتدار میں آنے والی پارٹی کے ماہرینِ مُعِیشت کو، بجٹ کے بارے میں، سوچنا نہیں پڑتا ۔خود قومی بجٹ کو بھی یہ عِلم ہوتا ہے کہ....
” مَیں خیال ہُوں ، کسی اور کا
مجھے سوچتا ، کوئی اور ہے “
جناب ِڈار کہتے ہیں کہ۔”قومی بجٹ، مسلم لیگ ن کے انتخابی منشور کے مطابق ، اورہماری معاشی پالیسی کا اعلان ہے“۔ڈار صاحب نے وزیرِاعظم آفس کے اخراجات، 45فیصد کم کرنے اور وزراءکی صوابدیدی گرانٹ ختم کرنے کا اعلان کر کے،سابق وزرائے اعظم اور وزراءکو چھیڑنے اور عوام کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اچھی بات ہے ،لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیا اپنے اپنے علاقے میں۔”تعمیر و ترقی کے منصوبوں“۔ کے نام پر، ارکان ِپارلیمنٹ کوماضی کی طرح، کروڑوں روپے مِلتے رہیں گے یا نہیں؟۔یہ بھی نہیں بتایا کہ وزیرِاعظم کے بیرونی دَوروں میں ،اُن کے ساتھ جانے والا وفد مُختصرہوگا یا جم ِغفیر؟۔ اور یہ کہ کیا حکومت میں شامل۔ صاحبانِ حیثیت سیاستدان ،بیوروکریٹس اور اُن کے قریبی رشتہ دار ،سرکاری خرچ پر، حج یا عُمرے کی سعادت حاصل کرتے رہیں گے یا نہیں؟۔ یہ بھی نہیں بتایا کہ یہ سب اصحاب، اپنا اپنا میڈیکل چیک اپ، اندرونِ مُلک کرایا کریں گے، یا حسبِ روایت، بیرونی مُلکوں میں؟۔16وزارتوں کا خفیہ فنڈ ختم کِیا ۔بہت اچھا کِیا ۔خفیہ ایجنسیوں کے فنڈز کا بھی آڈٹ ہو گا ۔بہت اچھی بات ۔ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے لئے ،کم سے کم 5ہزار روپے پینشن کا اعلان ،مایوس کُن ہے۔اِن بے چاروں کی تو کوئی ۔” بالائی آمدن“۔بھی نہیں ہوتی ۔ یہ مُعمر لوگ ۔جنابِ ڈار کی اخبار میں چھپی تصویر کو سامنے رکھ کر ضرورکہا کریں گے کہ....
” ہم پہ ، احساں جو نہ کرتے ، تو یہ احساں ہوتا “
تیز رفتاری سے بڑھتی ہُوئی مہنگائی کے باوجود ، سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہیں بڑھائی گئیں، اب اُن سے ، اچھی کارکردگی کی کیا اُمید کی جا سکتی ہے؟۔” بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام “۔ کے تحت، نادار لوگوں کے لئے، وظیفے کی رقم ایک ہزار سے 12سو روپے ماہوار کر دی گئی ہے ۔جو کم ہے اور وہ لوگ جو ۔” انکم سپورٹ “۔ سے بے نظیر کا نام کاٹنے پر شور مچا رہے ہیں ،اُنہیں اُس وقت شرم کیوں نہ آئی؟۔ جب، انہوں نے ۔” قائدِاعظم پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کالج اسلام آباد ،کویونیورسٹی میں تبدیل کر کے ،اُس کا نام۔” ذوالفقار علی بھٹو شہید یو نیورسٹی “۔ رکھ دِیا تھا۔بے گھر لوگوں کے لئے۔ 3/3مرلے کے 500گھروں کی ایک ہزار کالونیاں بنانے کا اعلان بھی اچھی خبر ہے ،لیکن ہمارے تو ،40فی صد لوگ، غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ مناسب یہی ہوگا کہ یہ سارے گھر، ارکان پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی کی سفارش پر نہیں ،بلکہ بذریعہ قُرعہ اندازی ،الاٹ کئے جائیں۔ قرضِ حَسنہ اور بے روزگاروں کو کاروبار کے لئے قرضے دینے میں بھی شفافیت ہونا چاہیے ۔بجٹ میں ۔”کالا باغ ڈیم “۔ کی تعمیر کاسبز باغ بھی نہیں دِکھایا گیا ۔ چاروں صوبوں میں اتفاقِ رائے کب ہوگا، نہ نو مَن تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی ؟۔ کیوں نہ مسلم لیگ ن کی حکومت، کالا باغ ڈیم بنانے یا نہ بنانے پر ۔ریفرنڈم کرا لے ؟۔
ریلوے کی تعمیرِ نو کے لئے، 31ارب روپے ، مُختص کر کے اُسے کارپوریشن میں تبدیل کرنے کا اعلان کِیا گیا ہے ۔ مسلم لیگ ن نے 5سال کرپٹ لوگوں کی حکومت کو ۔”جمہوریت کی گاڑی“۔ قرار دے کر ،اُسے چلنے دِیا ۔اب اُسے ایسا انتظام کرنا ہو گا کہ ریلوے کی ہر مسافر گاڑی وقت پر چلتی رہے ۔وزیرِ خزانہ نے ٹیکس دہندگان کا دائرہ بڑھانے ا ور زیادہ آمدن والے لوگوں پر، زیادہ ٹیکس لگانے کا اعلان بھی کِیا ہے ۔دھیمے سُروں میں ،صوبائی حکومتوں کو زرعی آمدنی پر ٹیکس کی وصولی کا اشارہ بھی دِیا ہے ۔لیکن ،ہمیں کبھی نہ کبھی تو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ۔”رزاعت پیشہ برگزیدہ لوگ “۔بھی دوسرے کاروباری لوگوں کی طرح ،خلوصِ دِل سے ٹیکس دہندگان میں شامل ہو جائیں ۔جنابِ ڈار خود بھی Tax Practitioner رہے ہیں ۔اُنہیں عِلم ہے کہ، ٹیکس نہ دینے کے لئے،فنکار لوگ ، کیا کیا حربے استعمال کرتے ہیں؟۔بجلی کے نِرخ بڑھانے اور مختلف شعبوں سے سبسڈی ختم کرنے اور جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فی صد اضافہ کرنے سے، غریبوں پر ہی بوجھ پڑے گا ۔ مہنگائی بڑھے گی تو،اُن کا گھر کیسے چلے گا ؟۔ شاعرِ سیاست کہتے ہیں....
” ہے مہنگائی کا ڈر ، چُونکہ ، چُنانچہ
چلے گا ، کیسے گھر ؟ چُونکہ ، چُنانچہ
جنابِ ڈار کی ، تقریر ، واہ ، واہ!
بجٹ اچھّا ہے ، پَر ، چُونکہ ، چُنانچہ “