سیشن کورٹ‘ مخالفوں نے عدالت میں گھس کر ماموں بھانجے کو قتل کر دیا‘ پولیس منہ دیکھتی رہ گئی
لاہور (اپنے نامہ نگار سے + سٹاف رپورٹر) ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صادق مسعود صادق کی عدالت میں قتل کے مقدمہ میں پیشی پر آئے ہوئے ماموں بھانجا مخالفین کی فائرنگ سے جاںبحق جبکہ ان کے دو ساتھی شدید زخمی ہو گئے۔ واقعہ سے سیشن کورٹ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ سائلین اور وکلا کی دوڑیں لگ گئیں۔ حملہ آور فائرنگ کرتے ہوئے موقع سے فرار ہو گئے تاہم پولیس نے 3 مشکوک افراد کو حراست میں لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق تھانہ باٹا پور میں درج ہونے والے قتل کے مقدمہ نمبر 600/11 میں نامزد ملزم جماعت علی اس کا بھانجا نثار علی، رضوان اور ارشد اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ گذشتہ روز تاریخ پیشی پر آئے، عدالت کے باہر تاک لگا کر بیٹھے ان کے مخالفین نے فائرنگ کر دی جس سے لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی، جماعت علی اور ان کے ساتھیوں نے جان بچانے کی خاطر کمرہ عدالت میں پناہ لی مگر حملہ آوروں نے عدالت میں گھس کر انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا جبکہ جماعت علی کے دو ساتھی رضوان اور ارشد شدید ز خمی ہو گئے۔ بتایا گیا ہے کہ ارشد جان بچانے کی خاطر فاضل جج کے چیمبر میں گھس گیا تو حملہ آوروں نے وہاں جا کر اسے فائرنگ کا نشانہ بنایا۔ اس موقع پر وکلا نے سکیورٹی ایلکار پولیس کے کانسٹیبل کو فائرنگ کرنے کے لئے کہا مگر پولیس اہلکار کی بندوق سے کافی کوشش کے باوجود فائر نہ ہو سکا جس پر وکلا کی کوشش سے دوسرے اہلکار نے فائرنگ کی تو حملہ آور بھاگ گئے۔ وکلا نے زخمیوں کو اپنی مدد آپ کے تحت ہسپتال پہنچایا جہاں ان کی حالت انتہائی نازک بیان کی جاتی ہے۔ فائرنگ کے واقعہ پر ججز حضرات نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی ہدایت پر زیر سماعت تمام مقدمات میں آئندہ کی تاریخ ڈال دیں اور دس بجے سے قبل سیشن کورٹ سائلین سے خالی ہو گیا۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہیں ڈی آئی جی سمیت پولیس کے اعلیٰ افسر اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عمر عطا بندیال بھی فوری طور پر سیشن کورٹ پہنچ گئے۔ پولیس کے مطابق جماعت عل گروپ نشتر کالونی جبکہ ان کے مخالف شہباز گروپ کے افراد باٹا پور کے علاقے ڈوگراں گا¶ں کے رہائشی اور آپس میں رشتہ دار ہیں، دونوں میں اراضی کا تنازعہ عرصے سے چلا آ رہا ہے اور اب تک دونوں کے 9 افراد دشمنی کی بھینٹ چڑھ چکے۔ پولیس نے مرنے والوں کی نعشیں پوسٹ مارٹم کے لئے ہسپتال بھجوا کر ملزموں شہباز اور نواز اور ان کے 8 نامعلوم ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ ثناءنیوز کے مطابق واقعہ کے بعد ڈیوٹی پر موجود 15 پولیس اہلکاروں کو فرائض میں غفلت برتنے پر معطل کر دیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ سیشن کورٹ میں 36 اہلکار متعین ہتے ہیں، گذشتہ روز ڈیوٹی سے 17 اہلکار غیر حاضر تھے۔ ادھر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے واقعہ کے بعد سیشن کورٹ کے دورے میں کچہری کے تمام راستوں کا جائزہ لیا۔ بعدازاں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے چیمبر میں چیف جسٹس کی صدارت میں اجلاس ہوا جس میں جوڈیشل افسران، لاہور بار کی کابینہ، وکلا اور پولیس کے اعلیٰ افسروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پیر 17 جون سے احاطہ سیشن کورٹ میں عملاً کرفیو نافذ ہو گا اور وکلا کی گاڑیاں احاطہ سیشن کورٹ میں داخل نہیں ہوں گی جبکہ وکلا کو بھی سیشن کورٹ میں داخل ہوتے وقت سکیورٹی اہلکاروں کو تلاشی دینا ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم عدالتوں کی سکیورٹی کے معاملات کو مستقل بنیادوں پر بہتر کرنے کے لئے 17 جون کو ہائیکورٹ میں بار اور ججز کا ایک اجلاس منعقد کریں گے جس میں سکیورٹی کو فول پروف بنانے کے لئے وکلا بار اور ججز اپنی اپنی تجاویز پیش کریں جن کی مدد سے آئندہ کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔ فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اجلاس کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتوں کی سکیورٹی اگر پولیس کی عقل میں نہیں آتی تو اس کا انتظام ہم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں کو تحفظ فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر اب بھی پولیس پر چھوڑ دیا تو پھر ایسے ہی واقعات ہونگے۔