خوابوں، خیالوں اور ٹیکسوں کا شاہکار بجٹ
پاکستان میں خواہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری، ہر کوئی وزیر خزانہ ہمیشہ عالمی مالیاتی اداروں کے مفادات اور ترجیحات کو مدنظر رکھ کر بجٹ پیش کرتا ہے ایوب خان کا محمد شعیب ہو، آصف علی زرداری کا حفیظ شیخ ہو یا نواز شریف کا اسحق ڈار وزیر خزانہ ہو سبھی عالمی ساہوکاروں کے قرضوں کو سود سمیت واپسی کو یقینی بنانے کی خاطر غریب عوام کو بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دباتے چلے جاتے ہیں۔حالانکہ اس ملک میں اگر نام نہاد طبقہ اشرافیہ کی ناجائز اثاثے بیرونی ممالک سے واپس حاصل کر لئے جائیں یا انکی اس ملک میں جائیدادوں اور اثاثوں پر مارکیٹ ریٹ پر ویلتھ ٹیکس اور اندرونی و بیرونی آمدنیوں پر پروگریسو ٹیکس وصول کر لیا جائے تو بالواسطہ ٹیکسوں سے عوام کی زندگی کو اجیرن کرنے سے بچا جا سکتا ہے۔ اسحق ڈار نے بے رحم ٹیکسوں کا بم غریب عوام پر پھینکا ہے ذرا جرا¿ت دکھاتے تو بڑے بڑے زمینداروں کی آمدنی پر بھی انکم ٹیکس کی سلیب جاری کرتے مگر انہوں نے معیشت کی زبوں حالی کا رونا روتے ہوئے عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کا 202 ارب روپے کا ناجائز بوجھ ڈال دیا ہے۔ ہونا تو چاہئے تھا کہ میاں نواز شریف اپنے منشور میں کئے گئے وعدے کے مطابق سرکاری اور پرائیویٹ کاروباروی اداروں میں کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار مقرر کرتے اور تعلیم کیلئے بجٹ میں جی ڈی پی کا پانچ فیصد مختص کرتے مگر عوام کی توقعات کے برعکس مالیاتی ڈسپلن کے نام پر عوام پر بجٹ کی صورت میں ایک عذاب نازل کر دیا گیا ہے۔ ایف بی آر میں جہاں پہلے ہی سالانہ کرپشن 500 ارب روپے کی ہے مزید رشوت کا ٹیکس بڑھا دیں گے کیونکہ براہ راست ٹیکس دینے والے طاقتور طبقوں کے سامنے ایف بی آر کے کرپٹ اہلکار کچھ نہیں کر سکتے ہیں الٹا انہیں ٹیکس بچانے کے طریقے بتاتے ہیں اور اگر کوئی ایماندار کلکٹر ٹیکس کےلئے سختی کرے تو بڑی بڑی کارپوریٹ کمپنیاں عدالتوں میں لی جاتی ہیں اس وقت 300 ارب روپے سے زائد کے ٹیکس وصولیوں کے کیس عدالتوں میں ہیں اور اس کا 60 فیصد عرص دراز سے ربوے کی کاروباری کمپنیوں کے ذمے ہیں۔ اسحق ڈار صاحب ذرا دل بڑا کرتے تو وہ موجودہ ٹیکس نظام میں کرپشن کا خاتمہ کر کے 500 ارب روپے زرعی آمدنی پر ٹیکس لگا کر 300 ارب روپے اور سٹاک ایکسچینج کے سودوں پر ٹیکس لگا کر سالانہ سو ارب روپے حاصل کر سکتے ہیں۔شیعب سڈل کمیشن جس پر اس قوم کے 50 لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں اسکے مطابق پاکستان کے پراپرٹی ٹائیکون کے ذمے 254 ارب روپے کے ٹیکس واجب الادا ہیں اور چھ سے سات کروڑ ارسلان افتخار کی کمپنی کے ذمے ہیں۔ میاں نواز شریف آپ نے لوگوں کے چولہے روشن رکھنے کا وعدہ کر کے ووٹ لئے تھے آپکے بھائی 6 ماہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کرتے رہے مگر اب خواجہ آصف صاحب کے مطابق آپ کے دور حکومت میں لوڈ شیڈنگ دور نہیں ہو گی اور اسحق ڈار کے معاشی ایجنڈے کے مطابق اس ملک میں اگلے پانچ سالوں میں مہنگائی ، بیروزگاری، صحت اور تعلیم کی سہولتیں عام عوام کو نہیں ملیں گی ۔ماضی کی معیشت کا سیاہ رخ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے عوام کو مستقبل کے سہانے سپنے دکھاتے ہوئے کہا کہ اگلے تین سالوں میں جی ڈی پی کی شرح نمو 7 فیصد تک بڑھ جائیگی، افراط زر کو ایک ہندسے تک محدود رکھا جائیگا، سرمایہ کاری کا تناسب 20 فیصد تک بڑھایا جائیگا، مالیاتی خسارہ 4 فیصد تک کم کر دیا جائیگا، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو 20 ارب ڈالر تک بڑھایا جائیگا مگر ایسا ممکن تبھی ہوتا کہ وہ آئی ایم ایف کا نگران حکومت کیلئے تیار کردہ بجٹ کو عوام بجٹ بنا کر پیش کرنے سے انکار کر دیتے۔بجٹ میں جس وحشیانہ انداز میں عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار کی گئی ہے اس سے بنیادی ضروریات زندگی کی تمام اشیاءکی قیمتوں میں کم از کم دس فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ پاکستان کے موٹر ویز، ریلوے اسٹیشن، ائرپورٹس، کلبوں اور ہوٹلوں میں پہلے ہی کھانے پینے کی اشیاءجوس، کولڈ ڈرنکس، پینے کے پانی کی بوتلیں دوگنی تگنی قیمتوں پر فروخت ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے ہوٹلوں، شادی ہالوں اور ریستورانوں میں پہلے ہی اشیاءاور خدمات پر سیلز ٹیکس کے علاوہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، پروفیشنل ٹیکس حتی کہ بیڈ ٹیکس اور سروس چارجز کھانوں اور رہائش پر وصول کئے جاتے ہیں اس پر اب 10 فیصد مزید وڈ ہولڈنگ ٹیکس لگا دیا گیا ہے حالانکہ اگر کاروباری اداروں اور ہوٹلوں، کلبوں میں ایکسائز اور ایف بی آر والے صحیح حساب کتاب سے پورا سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی وصول کرنا شروع کر دیں تو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی نہ باقی رہے۔ چینی بنیادی ضرورت زندگی ہے اس پر 8 فیصد ایکسائز ڈیوٹی ختم کر کے 17 فیصد سیلز ٹیکس لگا دیا گیا ہے جب حکومت سیلز ٹیکس صحیح طورپر وصول ہی نہیں کر سکتی ہے تو بہتر ہے کہ ہر شے کی مینو فیکچرنگ اور سیلز کے ہر مرحلے پر قدر میں اضافے کی بنیاد پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس VAT وصول کرے مگر ایسا جب مشرف دور حکومت میں کیا جانے لگا تو ایف بی آر کے کرپٹ حکام نے اس کو نافذ نہیں ہونے دیا ۔آج عوام کتنے ٹیکس دیں، سیلز ٹیکس دیں، فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ادا کریں اپنی پراپرٹی اور جائیداد پر ایکسائز ڈیوٹی دیں کنٹونمنٹ اور میونسپل کمیٹی کو چارجز دیں۔ بنکوں میں اپنے ہی پیسے نکلوانے کیلئے چارجز دیں۔ زبردستی انکے اکاﺅنٹس سے زکٰوة منہا کر لی جائے اور اب وہ اپنی بچتوں پر وڈ ہولڈنگ ٹیکس بھی دیں۔ تعلیم پر 5 فیصد ٹیکس دیں۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ کینیڈا سویڈن ناروے میں لوگ 60 فیصد تک انکم ٹیکس دیتے ہیں مگر وہاں ریاست میں ہر انسان کو تعلیم، صحت، روزگار اور رہائش کی مفت سہولتیں بھی ملتی ہیں اگر وزیراعظم نواز شریف نے اپنے صوابدیدی فنڈ کو ختم کیا ہے حکومت اخراجات کو تیس فیصد کم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے تو کیا ہی اچھا ہوتا مسلم لیگ (ن) کے وزارءاور اراکین پارلیمینٹ بھی تنخواہیں اور الاﺅنس نہ لینے کا اعلان کر دیتے۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیسے 8 فیصد مارک اپ پر ہر نوجوان کو پچاس لاکھ تک آسانی سے قرضہ فراہم کرینگے۔ اسحاق ڈار صاحب کہتے ہیں کہ وہ بیرونی ممالک سے قرض اور امراءکے طور پر 5 کھرب 76 ارب 41 کروڑ آسانی سے حاصل کر لیں گے امریکہ ہمیں کولیشن سپورٹ فنڈ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر دے دیگا۔ 3G لائسنس کی نیلامی سے 100ارب روپے حاصل ہو جائینگے اور اتصالات کے ذمے ہمیں 800 ملین ڈالر آسانی سے مل جائیں اللہ کرے ایسا ہی ہو۔بہرحال میاں نواز شریف کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسحق ڈار کے ہوتے ہوئے آپ کو کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں ہے اب سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ پیپلز پارٹی کیوں اسحق ڈار صاحب کو نگران وزیراعظم بنانا چاہتی تھی ....ع
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اسکا آسمان کیوں ہو