• news

بجلی نرخ مزید بڑھانے کی منظوری‘ مظاہروں کے بعد سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ

حکومت فیصلوں سے قبل مضمرات کا ادراک کیوں نہیں کرتی؟


وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کا اعلان کردیا ہے۔ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے بعد حکومت پر 20 ارب کا اضافی بوجھ پڑیگا۔ وفاقی بجٹ کے بعد سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کیلئے کمیٹی بنائی گئی تھی‘ کمیٹی نے ساڑھے سات فیصد اضافے کی تجویز دی تھی‘ وزیراعظم نواز شریف نے دس فیصد اضافہ کرنے کی ہدایت جاری کی۔ تنخواہوں میں اضافہ یکم جولائی سے ہوگا۔ دریں اثناءپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر اضافی ایک فیصد جنرل سیلز ٹیکس کے نفاذ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ بجٹ منظور ہوا نہ صدر نے دستخط کئے پھر حکومت نے پہلے ہی سیلز ٹیکس اضافہ کیسے لینا شروع کر دیا؟ حکومت کو ٹیکس لگانے کا اختیار ہے مگر فنانس بل کی منظوری سے قبل ٹیکس کا نفاذ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ہم ایف بی آر کے اس نوٹیفکیشن کو معطل کر دینگے۔ عوام تو پہلے ہی مہنگائی پر شور مچا رہے ہیں اس طرح سیلز ٹیکس میں اضافے اور عملدرآمد کی کیسے اجازت دی جا سکتی ہے جس پر اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ ٹیکس ایکٹ کے تحت پیشگی ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے، یہ ایکٹ آئین سے بالاتر نہیں، ٹیکس کے فوری نفاذ کا مقصد ذخیرہ اندوزی کو روکنا تھا‘ جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ ذخیرہ اندوزی روکنا صوبائی معاملہ ہے ایف بی آر کا اس سے کیا تعلق ہے، اربوں روپے لوگوں کی جیبوں سے نکل گئے، بادی النظر میں ٹیکس کا قبل از وقت نفاذ غیر آئینی ہے اس سے لوگوں پر بوجھ بڑھے گا‘ قانون کے بغیر ٹیکس نہیں لیا جا سکتا۔ اس موقع پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے کہ چھوٹی برائی کو روکنے کیلئے بڑی برائی کا سہارا لیا گیا۔مسلم لیگ (ن) کو برسر اقتدار آئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے کہ اسے عوامی احتجاجوں اور عدلیہ کے تحفظات کا سامنا ہے۔ اسکی بنیادی وجہ بجٹ کی تیاری کیلئے مختصر وقت ملنا تو ہے ہی‘ ساتھ ہی اس ہوم ورک کا فقدان بھی ہے جو اقتدار میں آنے سے بہت عرصہ قبل شروع کیا جانا چاہیے تھا۔ ہم نے جن ممالک سے جمہوریت مستعار لی یا انکی نقل کرتے ہیں‘ وہاں سیاسی پارٹیوں نے ہر شعبہ کیلئے تھنک ٹینک تشکیل دیئے ہوئے ہیں۔ پارٹی اقتدار میں ہو یا اقتدار سے باہر‘ اسکے تھنک ٹینکس اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ اپوزیشن حکومت کا قبلہ درست رکھنے کیلئے شیڈو کیبنٹ قائم کرتی ہے‘ ہمارے ہاں ایسا تصور بھی نہیں ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد تمام معاملات افراتفری میں نمٹاتے ہوئے حکمرانوں کا سانس پھول جاتا ہے جس کے مظاہر ہم ہر حکومت کے ابتدائی دنوں میں دیکھتے آئے اور آج بھی دیکھ رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) پر عوام نے 11 مئی کے انتخابات میں بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ قوم نے پیپلز پارٹی کو اسکی عوام کش پالیسیوں اور منظرعام پر آنیوالی بدترین کرپشن کی کہانیوں کے باعث مسترد کردیا۔ توانائی کے بحران سے انڈسٹری کا پہیہ جام ہونے سے لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے۔ گھریلو زندگی اور بچوں کی تعلیم شدید متاثر ہوئی۔ مہنگائی اور لاقانونیت بھی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ عوام ہر شعبہ میں موجودہ حکومت سے ریلیف کی توقع رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو حکومت میں آئے ابھی دو ہفتے نہیں ہوئے‘ اس مختصر عرصہ میں عوامی مسائل اور مشکلات کو حل کرنا کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں ہوتی اور ایسا کوئی باشعور اس سے تقاضا بھی نہیں کرتا۔ عوام میں مایوسی اور کسی حد تک اشتعال حکمرانوں کی طرف سے مایوس کن بیانات اور بلاسوچے سمجھے اٹھائے گئے اقدامات کے باعث پیدا ہو رہا ہے۔ پانی و بجلی کے وزیر خواجہ آصف نے بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے کسی عزم و ارادے کے اظہار کے بجائے کہہ دیا کہ لوڈشیڈنگ چھ سال میں ختم ہو گی۔ بجلی کی قلت کے باعث شدید گرمی میں تڑپتے فاقہ کش لوگ سڑکوں پر آئے تو ان پر پولیس نے تشدد کیا اور چاردیواری کا تقدس بھی پامال کیا گیا۔ حالانکہ چند ماہ قبل مسلم لیگ (ن) کے قائدین ایسے مظاہروں کی خود قیادت کیا کرتے تھے۔ بلاشبہ بجلی کی کمی فوری طور پر دور نہیں کی جا سکتی لیکن سپریم کورٹ کے ہر صوبے‘ محکمے اور ادارے کیلئے یکساں لوڈشیڈنگ کے حکم پر عملدرآمد میں کیا امر مانع ہے۔ اگر یکساں لوڈشیڈنگ ہو اور کوئی ادارہ اس سے مستثنیٰ نہ ہو تو یقیناً ان لوگوں کو ریلیف ملے گا جن پر 16 سے 20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا عذاب مسلط ہے۔ ملک میں یکساں لوڈشیڈنگ کی راہ میں گردشی قرضے رکاوٹ ہیں‘ نہ اس کیلئے کسی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اس پر عمل نہ ہونا گزشتہ حکومت کی طرح کی مس مینجمنٹ ہے جس سے نوزائیدہ حکومت کی مقبولیت کا گراف گر رہا ہے۔ عوام کو حکومتی مشکلات کا ادراک ہے‘ وہ بجٹ میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے کی توقعات نہیں کر رہے تھے‘ اسکے ساتھ یہ بھی امید نہیں تھی کہ بجٹ تجاویز کی منظوری سے قبل ہی جی ایس ٹی میں اضافے کا اطلاق ہو جائیگا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یکم جون کو اضافہ ہوا‘ بجٹ کا اعلان ہوتے ہی ایک بار پھر انکی قیمتیں بڑھا دی گئیں۔ سپریم کورٹ نے اس پر ازخود نوٹس لیا تو حکومتی وکیل اسے مطمئن نہ کر سکا۔ حکومت نے موقف اختیار کیا کہ ذخیرہ اندوزی کے خدشے کے باعث جی ایس ٹی کا فوری نفاذ کیا گیا۔ ذخیرہ اندوزی کیخلاف اقدامات متعلقہ محکموں کی ذمہ داری ہے‘ اگر وہ اپنے فرائض میں غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں تو اسکی سزا عوام کو کیوں دی جائے اور پھر ایف بی آر نے کیسے تصور کرلیا کہ ذخیرہ اندوزی ہو گی اور متعلقہ محکمے اسے روکنے میں ناکام رہیں گے۔ حکومت کو محاصل کی ضرورت ہے اس کیلئے غیرآئینی طریقہ اختیار کرکے عوام کو پریشان اور بدظن کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ یہ تو گزشتہ حکومت کے ڈسے ہوئے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ ایک طرف بجلی کی شدید قلت اور حکومت کی طرف سے اس میں فوری ریلیف کے اقدامات نظر نہیں آئے‘ دوسری طرف اسکے نرخوں میں 75 پیسے فی یونٹ اضافہ اوگرا نے کردیا اور آج وزیراعظم نے فی یونٹ اڑھائی روپے اضافے کی منظوری دیدی۔ کیا عوام اس کو ہضم کر پائیں گے؟ ایسے اقدامات کیلئے حکمران تو یہ جواز بھی پیش نہیں کر سکتے کہ ان کو اقتدار میں آئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کے مظاہروں کے بعد انکی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کردیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ فیصلہ بجٹ میں کیا جاتا۔ اس سے یہ تاثر کسی صورت جنم نہ لیتا کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی طرف سے ہونیوالے مظاہروں کے پیش نظر دباﺅ میں آکر کیا ہے۔ جو کمیٹی وزیراعظم نے تنخواہوں میں اضافے کا جائزہ لینے کیلئے تشکیل دی‘ اگر بجٹ تقریر میں اس کمیٹی کے قیام کا ذکر کیا جاتا تو ملازمین سڑکوں پر نہ آتے۔ حکومت کو پالیسیاں بناتے وقت اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ عوام الناس اس پر کس ردعمل کا مظاہرہ کرینگے۔ اگر ایسا ہو تو ندامت سے بچا جا سکتا اور اس تاثر کو زائل کیا جا سکتا ہے کہ حکومت دباﺅ میں آئے بغیر فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حکومت نے جس طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرکے ان کو مطمئن کیا ہے‘ اس طرح وہ جی ایس ٹی کے نفاذ کا اطلاق فوری طور پر واپس لے اور حسب سابق بجٹ منظور ہونے کی صورت میں نئے مالی سال سے اس کا نفاذ کرے۔ 

ای پیپر-دی نیشن