زیارت میں قائداعظم ریذیڈنسی ........ راکٹ ‘ بم حملوں میں خاکستر
فرزانہ چوہدری
دہشت گردی اور تخریب کاری کی وارداتوں میں انسانوں کی ہلاکت ایک بہت بڑا المیہ ہے لیکن اگر دہشت گرد کسی ملک کی تاریخ کو ختم کرنا شروع کر دیں تو یہ سانحہ قوموں کی ہلاکت کا باعث بن جایا کرتا ہے۔ سقوطِ غرناطہ اس کی اہم ترین مثال ہے جہاں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو اس کے بعد ان کی یورپ میں آمد اور حکمرانی کی تاریخ کو کھرچ کھرچ کر مٹا دیا گیا اور سپین کے طول و عرض پر حکمرانی کرنے والے مسلمان حکمرانوںکا نام و نشان تک گردِ زمانہ میں دب کر رہ گےا۔
سقوطِ ڈھاکہ کو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین باب قرار دیا جاتا ہے کہ اس روز قائداعظمؒ کے بنائے ہوئے اس ملک کا ایک حصہ دشمنوں کی سازش اور اپنوں کی بیگانگی کے سبب ہم سے جُدا ہو گیا۔ اس کے بعد بھی ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے خلاف دشمنوں کی سازشیں اور اپنوں کی بیگانگی آج بھی جاری ہے اور قائد کا پاکستان لہو لہو ہے۔
پاکستانی قوم کے لئے ایک اور سیاہ دن 15 جون 2013ءکو طلوع ہوا۔ اس دن پاکستان کی تاریخ کی ایک اہم ترین ےادگارزیارت میں اس ریذیڈنسی کو تحریب کاروں نے دستی بم دھماکے کر کے شہید کردیا جہاں بابائے قوم نے اپنی حیاتِ مبارک کے آخری دوماہ دس دن بسر کیے تھے۔ اس عمارت کو پاکستان کا قومی ورثہ قرار دیا گیا تھا اور یہاں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی نادر و نایاب تصاویر اور ان کی ذات سے وابستہ تبرکات محفوظ تھے۔ عمارت کی تباہی کے ساتھ یہ نوادرات اور قائداعظم ؒ کی تصاویر بھی مکمل طور پر تباہ ہو گئیں گویا باالفاظِ دیگر ہماری تاریخ کا ایک اہم ترین حصہ ہم سے چھین لیا گیا۔
زیارت ریذیڈنسی کی عمارت 1892ءمیں تعمیر کی گئی تھی۔ زیارت کوئٹہ سے تقریباً ایک سو بائیس کلومیٹر دور ہے۔ قائداعظم ریذیڈنسی کی عمارت وادی زیارت کے خوبصورت اور پُرفضا مقام پر واقع تھی۔ اس قابلِ دید اور تارےخی اہمےت کی حامل رہائش گاہ کی عمارت کے بیرونی حصے میں چاروں طرف لکڑی کے ستون اور اندرونی حصے میں بھی لکڑی کا استعمال بہت خوبصورتی سے اور منفرد انداز مےں کیا گیا تھا۔ آٹھ کمروں پر مشتمل اس دومنزلہ رہائش گاہ میں دونوں اطراف سے مجموعی طور پر 28 دروازے بنائے گئے تھے۔ عمارت کے گراونڈ فلور پر دوبےڈ رومز ڈرےسنگ اور باتھ رومز کے ساتھ ، باورچی خانہ، سٹور روم ،اےک ڈرائنگ اور ڈنر روم ےھا جبکہ بالائی منزل پر چار بےڈ روم اٹےچ باتھ رومز اور اےک نوفٹ کی گےلری تھی ۔ قائدؒ کی اس رہائش گاہ کو قیام پاکستان کے بعد ایک تاریخی حیثیت حاصل تھی۔ صنوبر کے جنگلات میں گھری اس خوبصورت عمارت کو سینی ٹوریم کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ بعد ازاں اس عمارت کو گورنر جنرل کے نمائندے کی رہائش گاہ میں تبدیل کر دیا گیا لیکن آج تک ہم اس عمارت کو نہ تو سینی ٹوریم کی حیثیت سے یاد کرتے تھے اور نہ ہی ہمارے لئے اس وجہ سے محترم و مقدس تھی کہ کسی زمانے میں یہاں گورنر جنرل کا نمائندہ خصوصی رہائش پذیر تھا۔ یہ عمارت ہمیں اس لئے پیاری تھی کہ اس میں برصغیر کے مسلمانوں کے عظیم قائد اور بانی پاکستان نے اپنی پاکیزہ زندگی کے آخری چند روز بسر کئے تھے۔ اس عمارت نے بابائے قوم کی اپنی قوم اور ملک کے لئے فکر مندی کا مشاہدہ کیا تھا۔ یہ عمارت ایک نحیف و نزار اور بیمار وجود میں تندرست و توانا روح والے اس عظیم قائد کی آخری باتوں کی امین تھی۔
دنیا بھر میں تاریخی عمارات کو قومی ورثہ قرار دے کر انہیں ہر قسم کے حادثات اور آفات سے محفوظ بنایا جاتا ہے۔ زندہ قومیں طوفانوں اور قدرتی آفات کو بھی اپنے تاریخی ورثے تک پہنچنے سے روکنے کےلئے اپنے عزم و ارادے کو ڈھال بنالیتی ہیں۔ شرپسندوں اور تخریب کاروں کا تو ذکر ہی کیا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم اس عمارت کی حفاظت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے جو قائداعظمؒ کو اپنی خاموشی اور سکون بخش ماحول کی وجہ سے بہت پسند تھی۔ اس عمارت نے قائداعظمؒ کو پاکستان میں آباد ہونے کی چاہ میں اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے اور اسی دوران ہندوﺅں اور سکھوں کے ہاتھوں تہہ تیغ ہونے والوں کے دکھ کو محسوس کرتے اور اس پہ حد درجہ ملول ہوتے ہوئے دیکھا تھا اس عمارت کی راہداریاں اور کمرے قائداعظمؒ کی یہاں موجودگی، دنوں میں تاریخ کو کئی پہلو بدلتے اور ازسرِ نو رقم ہوتے ہوئے دیکھ چکے تھے کہ جب اس نوزائیدہ مملکت خداداد کے عمال حکومت اور پاکستانی قوم کے دیگر رہنما اپنے سربلند قائد سے رہنمائی لینے کےلئے آتے تھے۔
ہمارا المیہ یہ نہیں کہ ہم لکڑی اور پتھر سے تعمیر کردہ در و دیوار کو تخریب کاری کا نشانہ بننے سے نہیں بچا سکے ،ہمارا المیہ یہ بھی نہیں کہ ہم قائد کی نادر و نایاب تصاویر اور تبرکات کی حفاظت نہیں کر پائے، ہمارا المیہ یہ بھی نہیں کہ ہم نے ایک تفریحی مقام یا پکنک پوائنٹ کو برباد ہوتے ہوئے دیکھا، بلکہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اس شخص کی یادوں کے ساتھ بھی انصاف نہیں کر پائے جس نے اپنی زندگی کے شب و روز ہماری آزادی کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے گزار دئیے۔ ہم اپنے سب سے بڑے قومی محسن کا احسان تو کیا چکاتے ہم نے پہلے اس کا بنایا ہوا آدھا نشیمن خود اپنے ہاتھوں جلا دیا اور اب اس عمارت کے پرخچے اڑا کر رکھ دئیے جہاں اسی محسن نے اپنی زندگی کے آخری چند ایام بسر کئے تھے۔
زیارت ریذیڈنسی کی تباہی دراصل ایک پیغام ہے کہ بلوچستان میں حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ وہاں موجود پاکستان کی ہر نشانی کو بھی فنا کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔ دہشت گردوں نے اس عمارت کی تباہی کے ذریعے ہمیں یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مزید نہیں رہنا چاہتے اب یہ پوری قوم کا فرض ہے کہ وہ یکجان ہوکر دہشت گردوں کو جوابی پیغام دے کہ زیارت ریذیڈنسی صرف ایک عمارت ہی نہیں تھی یا ہمارے کسی کرنسی نوٹ پر چھپنے والی ایک تصویر نہیں تھی کہ جس کو تباہ کرکے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ تعلق ختم ہوجائے گا۔ بلوچستان ہر سچے پاکستانی کا دل ہے اس کی سوچوں کا محور ہے۔ تخریب کار عمارات اور افراد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں لیکن سوچوں کو تاراج نہیں کرسکتے۔ زیارت ریذیڈنسی کی عمارت تباہ ہوگئی لیکن اگر ہر پاکستانی کے دل میں زیارت زندہ ہے تو قائد کے پاکستان سے قائد کی یاد مٹانے والے ہمیشہ نامراد ہی رہیں گے۔
عینی شاہد کے مطابق چار دہشت گرد دو موٹرسائیکلوں پر سوار قائداعظم ریذیڈنسی کے احاطہ میں داخل ہوئے اور اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے بم عمارت کی جانب پھینکے جس سے عمارت میں شدید آگ بھڑک اٹھی اور چار گھنٹہ سے لگی اس آگ مےں قائداعظم ریذیڈنسی اپنی تمام اشیاءسمیت جل کر خاکستر ہوگئیں۔ ان اشیاءمیں قائداعظمؒ کے استعمال میں رہنے والی کرسیاں، بیڈ اور تاریخی تصاویر وغیرہ تھیں۔ دہشت گردوں نے اس عمارت کے اندر چھ مزید بم نصب کیے تھے جو بم ڈسپوزل اسکواڈ نے ناکارہ بنا دئیے۔ اس واقعے میں ایک پولیس اہلکار طاہر موقع پر جاں بحق اور چوکیدار زخمی ہوگیا۔ عمارت میں آتشزدگی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے مناسب انتظام موجود نہیں تھا۔ قائداعظمؒ کے انتقال کے بعد اس رہائش گاہ کو قائداعظم ریذیڈنسی کے نام سے قومی ورثہ قرار دیتے ہوئے عجائب گھر میں تبدیل کردیا گیا تھا۔
وزیراعظم مےاںنوازشریف، پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف، وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اور دیگر سیاسی رہنماﺅں نے زیارت میں قائداعظمؒ کی رہائش گاہ پر حملہ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ اندوہناک واقعہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ وزیراعظم مےاںنوازشریف نے کہا کہ اس طرح کے قومی اثاثوں اور ورثے کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے تمام تر اقدامات کو یقینی بنایا جائے گا۔ وزیرداخلہ نے ایوان کو بتایا کہ حملہ آوروں نے قائداعظمؒ کی رہائش گاہ سے پاکستان کا جھنڈا اتار کر بی ایل اے کا جھنڈا لگا دیا ہے۔ انہوں نے کہا حملے کی تحقیقات جاری ہیں بہت جلد قوم کو واقعے کی تفصیلی رپورٹ سے آگاہ کردیا جائے گا۔
چیف سیکرٹری بلوچستان نے کہا ہے ” زیارت میں قائداعظمؒ کی رہائش گاہ پر حملہ ناقص سےکیورٹی کی وجہ سے ہوا ہے۔ عمارت کی سےکےورٹی پر صرف اےک پولےس اہکار تعنےات تھا۔“ حکومت کو چاہےے قائداعظمؒ رےذےڈنسی کی بلا تاخےر مرمت کا کام شروع کروا دےنا چاہےے ، پاکستان کے تمام قومی ورثے کی عمارات کی سےکےورٹی کے انتظامات کےے جائےں اور قائداعظمؒ کی رہائش گاہ پر حملہ کرنے والوں کو سزا دی جائے۔