زیارت سانحہ ،ایک صوبائی مسئلہ
سردار ایاز صادق نے عمران خان کو شکست دی اور انعام میں انہیں قومی اسمبلی کی اسپیکر شپ کا منصب عطا ہوا۔ انہوں نے ہفتے کے روز یہ کہہ کر ایوان کو ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا کہ زیارت ریذیڈنسی کا سانحہ، صوبائی نوعیت کا مسئلہ ہے، اس لئے ارکان قومی اسمبلی کے جذبات سے بلوچستان حکومت کو آ گاہ کر دیا جائے گا۔
وزیر داخلہ چودھری نثار نے زیارت ریذیڈنسی سانحے کی ابتدائی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ زیارت پر لہرانے والا پاکستانی پرچم اتار کراس کی جگہ آزاد بلوچستان کاپرچم لہرا دیا گیا۔
اخبارات نے اگر دونوں لیڈروں کے خیالات کو درست طور پر رپورٹ کیا ہے تو میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ نہلے پر دہلے والی بات ہوئی۔
مسٹر بھٹو کے ذہن رسا نے حکومت سنبھالنے کے بعد یوم اقبال پر صرف ضلع سیالکوٹ میں چھٹی کا اعلان کیا تھا، وہ شاعر جو عرب و عجم پر حاوی تھا ، اسے ایک ضلع تک محدود کر دیا گیا۔
دنیا میں صرف سعودی عرب کا پرچم رات کو نہیں اتارا جاتا، باقی تمام قومی پرچم سر شام اتار لئے جاتے ہیں اور طلوع آفتاب کی پہلی کرن کے ساتھ لہرا دیئے جاتے ہیں۔کس قدر خوش قسمت تھے بلوچ لبریشن آرمی کے گوریلے کہ انہیں رات کے ایک بجے ریذیڈنسی پر پاکستان کا لہراتا ہوا سبز ہلالی پرچم مل گیا اور کس قدر جادو تھا ان کے اپنے پر چم میں کہ وہ بھڑکتے شعلوں میں لہرا دیا گیا اور اسے آگ نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور اسلام آباد میں محو خواب وزیر داخلہ کو یہ نظر بھی آ گیا۔
نہلے پہ دہلہ تو ہوگیا، اب میرے پاس محاورے ختم۔اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے ترت جواب دیا کہ قائد اعظم صوبائی اشو ہے تو پھرمزار قائد اعظم کو سندھ حکومت کی تحویل میں دے دیا جائے۔شاید وہ چاہتے ہوں کہ مزار کے احاطے سے مسلح افواج کے چوکس محافظوں کو ہٹا کر ان کی جگہ بھٹو دور کی ایف ایس ایف کو زندہ کر کے اس کے جیالے متعین کر دیئے جائیں گے۔
خدا کا شکر ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے زیارت کا مسئلہ مقامی یو نین کونسل کے کھاتے میں نہیں ڈال دیا۔قانون کی موشگافیوں کا سبق کوئی اس اسپیکر سے پڑھے۔ یا پھر عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان ان پر واضح کریں کہ وفاق کے تقاضے کیا ہیں اور جب وہ خود کراچی میں پھنسی ہوئی ٹریفک کا نوٹس لیتے ہیں تو وہ کسی شہر کے ٹریفک ایس پی کی راجدھانی میں مداخلت کے مرتکب نہیں ہوتے۔
میں نے یونہی لکھ دیا کہ قائد اعظم ثانی فوری طور پر مزار قائد پر حاضری دیں ، مجھے کیا پتہ تھا کہ موسم اس قدر خراب ہے کہ وزیر اعظم تو نندی پور کا سفر بھی نہ کر سکے، مگر میاں شہباز شریف کو تو لاہور سے جانا تھا، نندی پور کا سڑک کے راستے فاصلہ صرف ڈیڑھ گھنٹے کا ہے ،مگر شاید دونوں بھائی صرف ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں میں سفر کے عادی ہو گئے ہوں۔ شکر ہے کہ میں نے یہ تجویز نہیں دے دی کہ وزیر اعظم زیارت جا کر قائد کی یادوں کی راکھ پر ایک نظر تو ڈالیں۔
ویسے نندی پور کا مسئلہ وفاقی کیسے ہو گیا، یہ تو خالص صوبائی منصوبہ ہے، صرف شہباز شریف کی ذمے داری بنتا ہے، وزیر اعظم نے اس قصبے کا قصد کیسے کر لیا مگر یہ فرق سردار ایاز صادق ہی ان کو سمجھا سکتے ہیں۔
زیارت کے ڈپٹی کمشنر ندیم طاہر نے تین دھماکے سنے، پہلے انہوں نے سمجھا کہ کسی نے اونچے پہاڑوں سے راکٹ داغے ہیں ، پھر انہیں قائد کی ریذیڈنسی کے جلنے کی روح فرسا خبر ملی، ڈپٹی کمشنر نے اپنے آپ کو اس آگ کے سامنے بے بس پایا کیونکہ ضلعی صدر مقام پر فائر بریگیڈ کا انتظام نہیں تھا، قائد کا آخری ٹھکانا ان کی آنکھوں کے سامنے جلتا رہا،ڈپٹی کمشنر بے بسی سے محو نظارہ رہے، ایک اور ڈپٹی کمشنر عبد المنصور کاکڑ کوئٹہ کے ہسپتال میں زخمیوں، مریضوں، ڈاکٹروں اور نرسوں کے سامنے ڈھال بنے کھڑے تھے ، انہوں نے سینے پہ گولیاںکھائیں ، اتوار کی صبح انہیں پاکستان کے قومی پرچم میں لپیٹ کر آخری آرام گاہ میں اتارا گیا۔ زیارت کے ڈپٹی کمشنر ندیم طاہر کے سامنے بھی ایک راستہ کھلا تھا، وہ جس پاکستان میں ایک معزز عہدے پر پہنچے تھے، اس کے خالق کی ایک عظیم علامت شعلوں کی زد میں تھی اور عمارت کے اندر قائد کی یادوں کا امین سازو سامان بھسم ہو رہا تھا، اگر اس موقع پر ہمت کر کے آگ میں کود جاتے اور قائد کا وہ اگالدان ہی نکالنے کی کوشش کرتے جس میں ٹی بی کے آخری مرحلے کا مریض خون آلودتھوک پھینک کر اپنا سینہ صاف کرنے کی کوشش کرتا تھا،محترم ڈپٹی کمشنر شاید بھڑکتے شعلوں سے زندہ باہر نہ نکل پاتے لیکن ایسے ہی سرفروشوں کے لئے بلوچستان کی بہادر خاتون زرغونہ نے کہا تھا کہ میں اپنی زلفوں کے دھاگے سے تمہارے لئے کفن سیوں گی۔یہ کفن ہر کسی کے نصیب میں کہاں !
اتوار کو آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی او رپی اے ایف چیف ایئر مارشل طاہر رفیق بٹ نے جنگی مشقوں کا فائنل مرحلہ دیکھا۔ عزم نو نامی یہ جنگی مشقیں ایک عرصے سے جاری تھیں۔ان سپاہ سالاروں نے اس عزم کو دہرایا ہے کہ وہ مستقبل کے کسی بھی چیلنج سے عہدہ بر آ ہونے کے لئے تیار ہیں ۔میں نے ان دونوں سپاہ سالاروں کے ان گنت قصیدے لکھے ہیں۔کیا میں ان سے سوال کر سکتا ہوں کہ جب آپ ہی کے بقول ملک کو ایک نئے خطرے کا سامنا ہے، قوم کا دشمن بے چہرہ ہے، وہ اندر سے ہماری بنیادوں کو ڈائنا میٹ کر رہا ہے تو کیا یہ ضروری نہیں ہو گیا کہ عزم نو کے بعد ۔۔ عزم مصمم ۔۔کے نام سے ایک جنگی مشق اور کی جائے جس میں پاکستان کے اندرونی دشمنوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے گر تلاش کئے جائیں۔ہماری مسلح افواج کے تینوں سپاہ سالار آئین کی وہ تشریح بھی ڈھونڈیں جس میں پاکستان کو اندرونی خطرات سے نبٹنے کا راستہ مل سکتا ہے، وہ راستہ نہیں جو ایوب، یحی، ضیا ا ور مشرف نے اختیار کیا ۔اندرونی خطرات سے نجات دلانے کے لئے ہماری افواج کوئی بھی اقدام کریں گی تو سوات اور مالا کنڈ آپریشن کی طرح وہ قوم کو شانہ بشانہ پائیں گی۔
سردار ایاز صادق اسی عہدے سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے یہ کلمات واپس لیں کہ قائد ریذیڈنسی کا سانحہ صوبائی اشو ہے۔قائد اعظم کے پاکستان میں اس قدر عزت پانی ہے تو قائد کا احترام بھی ملحوظ رکھنا ہوگا۔ورنہ وہ استعفی دیں اور گھر کی راہ لیں، اس لئے کہ:
Enough is enogh
پاکستان کے قومی اعزازت عطا کرنے کی فائنل منظوری جناب صدر کو دینا ہوتی ہے، کیا میں ان سے امید رکھوں کہ زیارت ریذیڈنسی میں جس چوکیدار کو بھسم کر دیا گیا اور پھر ایک پولیس کے سپاہی نے دہشت گردوں پر فائر کھولا اور اسے بھی شہید کر دیا گیا تو ان دونوں کے لئے اعلی تریں سول اعزازات کاا علان کیا جائے۔
میں اپنے گزشتہ روز کے کالم۔۔ سقوط زیارت۔۔ پر قارئین کی طرف سے حوصلہ افزا پیغامات اور ٹیلی فونز کے لئے بے حد مشکور ہوں۔