ممبران اسمبلی اور پولیس والے ایک جیسے ہیں
ممبران اسمبلی اور پولیس والے ایک جیسے ہیں
سارے ملک کو پتہ چل گیا ہے کہ نگہت شیخ ممبر پنجاب اسمبلی ہیں۔ وہ حکومتی پارٹی مسلم لیگ ن کی ایم پی اے ہیں۔ وہ کسی دوسری پارٹی کی رکن ہوتیں تو شاید خود بھی یہ حرکت نہ کرتیں۔ نہ پولیس ان کے حکم پر کارروائی کرتی۔ اس نے ایک غریب کی بیٹی مسافروں کی خدمت پر مقرر ایک معمولی ملازمہ اقرا بی بی کو تھپڑ مارے۔ اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے ایک بیمار کو پہلے پانی دے دیا اور نگہت شیخ تک پانی ذرا دیر سے پہنچا۔ یہ ممبر اسمبلی ہیں جو لوگوں کے ووٹ سے اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔ مگر خواتین ممبران تو وکھری ٹائپ کی ممبران ہیں۔ وہ منتخب ہیں مگر غیر منتخب ہیں۔ پارٹی لیڈر کی نگاہ کرم سے وہ یکایک ممبر اسمبلی بن جاتی ہیں۔ یہ جمہوری چھو منتر ہے۔ کسی ملک میں یہ جمہوری روایت نہیں ہے مگر پاکستان کی جمہوریت تو بہت جمہوریت ہے۔ پہلی بار جنرل مشرف نے اپنی اسمبلیوں میں عورتوں کو یہ اعزاز دیا تھا۔ ہمارے ہاں اعزاز اور عزت میں فرق ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے جمہوریت کی بقا کے لئے ایک غیر جمہوری حکمران کی اس روایت کو قائم رکھا۔ اسمبلی میں پارٹی لیڈر اور ان کے پیارے سیاستدانوں کی بیٹیاں، بیویاں، بھانجیاں اور عزیز خواتین کسی الیکشن کے بغیر اسمبلی میں پہنچ گئیں۔ میں نے لکھا تھا کہ اس کے لئے اہل ہونا شرط نہیں اہلیہ ہونا ضروری ہے۔
بس مری سے آ رہی تھی۔ یہ سفر اقرا کی ملازمت کا حصہ ہے مگر نگہت شیخ تو انجوائے کرنے کے لئے مری گئی ہوں گی۔
تھانہ بھیرہ ضلع سرگودھا کے پولیس والوں کو شرم بھی نہ آئی کہ وہ ایک لڑکی کو بس سے اتار کر تھانہ لے گئی اور پرچہ بھی کاٹ دیا۔ ظالم پولیس رشوت کے بغیر کسی عام آدمی کا پرچہ دینے کی تکلیف ہی نہیں کرتی انہیں صرف غریب پر ظلم کرنا آتا ہے وہ خود غریب گھروں کے لوگ ہوتے ہیں اور ظلم بھی غریبوں پر کرتے ہیں۔ ان میں جرات نہیں ہوتی کہ کسی امیر آدمی کی طرف اپنی گندی آنکھ سے دیکھ بھی سکیں ہماری پولیس بدنام ہے اور ناکام بھی ہے۔
شہباز شریف کب لوگوں کو پولیس کے ظلم و ستم سے بچائیں گے۔ مجھے ایک آرٹسٹ اور کمپیئر دوست نے فون کیا۔ ان کی آواز میں دردمندی تھی۔ وی آئی پی کلچر اور تھانہ کلچر کے لئے رنجیدہ تھے۔ وہ نگہت شیخ کو نہیں جانتے اور اقرا بی بی کو تو بالکل نہیں جانتے۔ میں بھی نہیں جانتا۔ اس خبر کے بعد نگہت شیخ بہت مشہور ہو گئی ہیں۔ مشہور اور بدنام ہونے میں بہت معمولی فرق ہے۔
تھانہ بھیرہ ضلع سرگودھا کے ایس ایچ او کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ڈی ایس پی میاں خان بھی کسی ہمدردی کا مستحق نہیں۔ ڈی پی او سرگودھا بھی اس شرمناک معاملے کو دیکھیں۔ شہباز شریف نے فوری طور پر نوٹس لیا۔ ان کی ہدایت پر پولیس والوں نے اس بے گناہ اور مظلوم لڑکی کو چھوڑ دیا۔ ورنہ وہ تو اسے حوالات میں بند کرنے لگے تھے۔ شہباز شریف اپنے ممبران اور وزیروں کو نظر میں رکھتے ہیں ورنہ وہ تو بھوکے شیروں کی طرح لوگوں اور عورتوں کو بھیڑوں بکریوں کی طرح کھا جائیں وہ عام لوگوں کو بھیڑیں سمجھتے ہیں اور خود بھیڑئیے بن جاتے ہیں۔ شہباز شریف نے انکوائری کا حکم بھی دیا ہے۔ آئی جی پنجاب کو رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔ آئی جی پنجاب اپنی پولیس کو سمجھائیں کہ لوگ تھانوں کو جائے امان سمجھیں۔ ملزمان پولیس سے نہیں گھبراتے صرف مدعی لوگ اپنی عزت بچانے کی فکر میں پڑ جاتے ہیں۔ پولیس افسران سے بھی درخواست ہے کہ وہ افسری نہ کریں۔ قانون کی طاقت کو لوگوں کا مددگار بنائیں۔ پولیس کی زیادتیاں اتنی ہیں کہ صرف میرے کالم جمع کئے جائیں تو پوری کتاب بن جائے۔
بس میں بیٹھے لوگ بھی مظلوم لڑکی کے ساتھ تھانے پہنچ گئے۔ اقرا بی بی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو سکی۔ اگر سول سوسائٹی والے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہو جایا کریں تو ظلم رکے گا نہیں مگر کم ہو جائے گا۔ میڈیا کی وجہ سے بھی اب ”ظالموں کو“ جرم اور ظلم کرنے میں اتنی آسانی نہیں ہوتی۔ ظالم بزدل ہوتا ہے۔ میں مظلوموں کو روتے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے شرم آتی ہے۔ آنسوﺅں کی طاقت کو بے بسی میں ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ افسر اور حاکم بنی ہوئی ایم پی اے نگہت شیخ بھی ساتھ تھی۔ پولیس والوں نے اسے باعزت رخصت کر دیا۔
لگتا ہے کہ ممبران اسمبلی اور پولیس والے ایک ہی طرح کے لوگ بن گئے ہیں۔ ان کے پاس اختیار نہ ہو تو بھی طاقت استعمال کرتے ہیں۔ پولیس والے اور افسران اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ وہ بے اختیاری سے واقف ہی نہیں۔ مظلوم اور کمزور بھی بے اختیاری کی بے نیازی اور طاقت سے واقف نہیں۔ ”مینوں لگ گئی بے اختیاری“
کمزور کا بھی ایک زور ہوتا ہے۔ نجانے وہ کب چلے گا۔ ملتان میں چھ برس کی ایک بچی پر زمیندار نے اپنے کھیت سے سبزی توڑنے کے ”بہت بڑے جرم“ کے لئے پالتو خونخوار کتا چھوڑ دیا جس نے اسے بھنبھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کی ناک بھی چبا لی۔ پولیس والے رپورٹ درج کرنے میں بھی ٹال مٹول کر رہے ہیں۔ اس زمیندار پر بھی کتا چھوڑ دیا جائے جو اسے بھنبھوڑے اور اس کی ناک چبائے تاکہ پھر کسی انسان کو اس طرح کی درندگی کی جرات نہ ہو۔
آرٹسٹ مایا خان کے پروگرام میں ایک نوعمر مظلوم لڑکی رو رہی تھی اسے اغوا کیا گیا۔ اس کے ساتھ بداخلاقی کی گئی مگر پولیس والے اور بااختیار لوگ تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں یہ بھی ملتان کا واقعہ ہے۔ نشتر ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بھی پولیس والوں جیسا سلوک کیا ہے۔ لڑکی کا باپ بھی رو رہا تھا صرف رونے سے کیا ہوتا ہے؟ کمزوری اور غریب پاکستان میں ایک جرم بن گیا ہے۔ جرم بے گناہی۔ یہاں ایک سال میں آٹھ ہزار لڑکیاں اغوا ہوتی ہیں۔ ظالموں کو ڈر بھی نہیں لگتا۔ سزا سے زیادہ سزا کا ڈر اہم ہے۔ کسی ظالم کو ایک بار عبرتناک سزا مل جائے تو بات بن جائے گی۔ ڈرو اس وقت سے کہ جب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر کسی کی دولت اور حکومت محفوظ نہ رہے گی۔ مظلوم ہونا ظالم کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ظالم کا ہاتھ پکڑ لو ورنہ صبر کرو
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات