آزمائش کی گھڑی‘ کون سرخرو ہوتا ہے؟
جتنا دکھ محسوس کیا جائے کم ہے جتنا غم قلب و ذہن کو بے سکون کرے تھوڑا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ دہشت گردوں نے ایک بے جان عمارت اور اس میں رکھی بے ضرر سی اشیاءکو کیوں نشانہ بنایا۔ بانی پاکستان قائداعظم کی ریذیڈنسی پر حملہ پاکستانیوں کے لیے جتنی اذیت کا باعث ہے اتنا ہی یہ سوال اہم ہے کہ یہ حملوں کیوں ہوا اگر یہ حملہ طالبان نے کیا ہے تو انہیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے اور اگر ناراض قوم پرستوں نے کیا ہے تو اس سے ان کے مقاصد کیا ہو سکتے ہیں۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے بلوچستان کی صورتحال پر ایک نظر ضروری ہے۔
(ن) لیگ کی زبردست کامیابی کے بعد میاں نواز شریف کو مرکز کے ساتھ ساتھ تین صوبوں میں حکومت سازی کا موقع ملا تھا وہ بہت آسانی کے ساتھ یہ چار حکومتیں بنا سکتے تھے اور مرکز کی حکومت ہونے کے باعث صوبائی حکومتوں کو کامیابی سے چلانے کی راہ بھی نکال سکتے تھے لیکن اس سے ملک میں محاذ آرائی کی ایسی صورت جنم لے سکتی تھی جس کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا تھا چنانچہ نواز شریف نے ملکی مفاد میں حقیقی مفاہمت کی پالیسی اختیار کی بلوچستان اور خیبر پی کے میں (ن) لیگ کے لیڈروں سے بالخصوص منتخب ارکان اسمبلی نے خوش دلی سے قبول کی جس کے نتیجے میں خیبر پی کے میں تحریک انصاف اور بلوچستان میں قوم پوستوں کی حکومت بن گئی مرکزی حکومت نے تمام صوبائی حکومتوں کو تعاون کا یقین دلایا بلوچستان کی نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک کے وزیراعلیٰ بننے سے کراچی سے پشاور تک خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی کہ اب وہاں معاملات ٹھیک ہونے کی صورت یوں بن جائے گی کہ قوم پرستوں کی حکومت سے معاملات طے کرنے میں ناراض قوم پرست آسانی محسوس کریں گے اور ڈاکٹر عبدالمالک ان کے ساتھیوں حاصل بزنجو، محمود خان اچکزئی اور دیگر کے لیے ان سے رابطے اور بات چیت دوسروں کی نسبت زیادہ مسئلہ نہیں بنے گی۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے بلوچستان کے حالات کو معمول پر لانے کے لیے جو فارمولا پیش کیا اس سے تمام قوم پرستوں کی امنگوں اور جذبات کی عکاسی ہوتی ہے مثلاً لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے اور عدالتوں میں پیش کیا جائے مسخ شدہ لاشیں پھینکے جانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اور نواب اکبر بگٹی کے قاتلوں کو سزا دی جائے۔ لاپتہ افراد کے رشتہ داروں سے اظہار یکجہتی کے لئے وزیراعلیٰ نے ان کے کیمپ کا دورہ کیا۔ ادھر وفاقی حکومت نے طالبان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش پر مثبت ردعمل کا اظہار کیا بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن کو مذاکرات کا راستہ ہموار کرنے کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی اس سے پاکستان میں مجموعی طور پر حالات کی بہتری کے امکانات واضح ہونے لگے۔ ظاہر ہے یہ صورتحال ان عناصر اور بالخصوص بیرونی قوتوں کے لئے قابل قبول کیسے ہو سکتی ہے جو پاکستان میں حالات میں مسلسل بگاڑ پیدا کر کے عدم استحکام کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ طالبان کی طرح قوم پرستوں میں بھی دو گروپ ہیں ایک وہ طالبان ہیں جو حریت پسند ہیں اور انی آزادی کے لئے امریکہ اور اس کی اتحادی فوجوں سے نبرد آزما ہیں دوسرے طمع پرست ہیں جو امریکی مقاصد کے آلہ کار ہیں اسی طرح بلوچ قوم پرستوں میں ایک تو ناراض لوگ ہیں جو فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں اور نواب اکبر بگتی کے قتل کے باعث شدید ردعمل کا شکار ہیں اور اگر ان کے تحفظات دور کر دیئے جائیں۔ شکایات کا ازالہ کر دیا جائے اور جائز مطالبات تسلیم کر لئے جائیں تو وہ بلوچستان میں معمول کی زندگی کا حصہ بن سکتے ہیں۔ دوسرا گروپ جس کی ناراضگی کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو ان کی ناراضگی سے فائدہ اٹھا کر پاکستان دشمن قوتوں نے انہیں اپنا آلہ کار بنا لیا ہے۔ بی ایل اے ان ہی لوگوں پر مشتمل ہے۔ فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف اور بی ایل اے میں عجیب مماثلت ہے کہ دونوں غیر ملکی ایجنڈے کے تابع ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے اقدامات سے غیر ملکی ایجنڈا آگے بڑھانے کی راہ کشادہ ہوئی۔ فاٹا، خیبر پی کے اور بلوچستان میں حالات خراب سے خراب تر ہوئے اور ان خراب تر حالات کو جوں کا توں رکھنے کے لئے بی ایل اے کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں سوچنے سمجھنے کی اہلیت رکھنے والے جس شخص سے رابطہ کیا جائے اس کی سوچ کا مرکز یہ ہے کہ ایک تو فوری طور پر مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے دوسرے نواب اکبر بگتی کے قتل کے ملزموں کو سزا ملنی چاہئے۔ اگر پاکستان کا مفاد اسی میں ہے تو پھر شخصیات اور کسی ادارے کی مقتدری سے جنم لینے والی انّا نہیں پاکستان کا مفاد مقدم ہونا چاہئے یہ پاکستان کے لئے جان دینے والوں اور پاکستان پر حکمرانی کرنے والوں کیلئے آزمائش کی گھڑی ہے قوم کی نظریں ان پر لگی ہیں کون سرخرو ہوتا ہے۔