• news

میاں صاحب کےلئے بڑا کام- اصل تبدیلی کا آغاز

انتخابات ہو گئے، تبدیلی آ گئی اوپر کی سطح تک حکومت، کی چہروں کی، چہروں پر تاثرات کی، یہ ہونا ہی تھا اب لازم ہے کہ نیچے کی سطح پر بھی تبدیلی آئے ،ہم میں سے اکثر کسی بڑے امتحان میں سرخرو ہوتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ اتنی کامیابی کی توقع نہ تھی نہ جانے کس کی دعاو¿ں نے اثر دکھایا ہے۔ 2013ءکے انتخابات کے نتائج ایسے نکلے کہ سرخرو ہونے والوں کو بھی ایسی توقع نہ تھی۔ میاں نوازشریف نے شاید اس پس منظر میں کہا کہ معاہدوں کی حکومت سے بچ گئے شاید خدا ہم سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے۔ میاں صاحب آپ نے درست کہا اس وقت تو بڑے کام کی نہیں بلکہ کرامات کی ضرورت ہے۔ خواہشات ہیں بڑی تبدیلی کی۔ تبدیلی ان انتخابات کا مرکزی نعرہ تھا یہ نعرہ مغربی بلکہ امریکی سیاست سے ترقی پذیر ملکوں

کی سیاست میں آیا ہے۔ وہاں تبدیلی کی خاطر ووٹ مانگنے کی روائت چلی یہاں تبدیلی نے رنگ جمایا۔ میاں نوازشریف، میاں شہبازشریف، عمران خان، سید منور حسن، الطاف بھائی سب تبدیلی کے نعرے کو ہی اپنے اپنے انداز میں لگانے کےلئے زور لگاتے رہے۔ انتخابات کے بعد کے منظر ایسے ہیں کہ اوپر لیڈروں کی سطح پر تو دعاو¿ں کی قبولیت کا وقت آیا تبدیلی آگئی اللہ نے چاہا تو اب عوام کی بھی سنی جائے گی۔ لگتا ہے جزوی طور پر تبدیلی آنے بھی لگی ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ یہ تبدیلی ہی تو ہے کہ سینکڑوں مرد ارکان اسمبلی نے جن میں علماءکرام اور عورت کو جوتی کی نوک پر رکھنے والے طبقے‘ وڈیرے بھی شامل تھے نے انتہائی مسرت سے ایک خاتون ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سے حلف لیا۔ یہ جمہوریت کا ثمر ہے کہ جنس کی بجائے سسٹم اور ادارے کے وقار کو تسلیم کیا گیا۔ یہ تبدیلی ہی تو ہے کہ صوبہ بلوچستان میں ایک عام لیکن معزز شہری ڈاکٹر عبدالمالک کو موقع دیا گیا کہ وہ سرداروں اور وڈیروں کی موجودگی میں وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالے۔ یہ تبدیلی ہی تو ہے کہ سسٹم کی خاطر انا کو قربان کرنے کی روائت مستحکم ہو رہی ہے۔ میاں نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی سپیکر سے حلف لیا ہے اب وزیراعظم کے طور پر صدر زرداری سے حلف لیں گے اور عمران خان اب مسلم لیگ ن کے سپیکر سردار ایاز صادق سے حلف لیں گے جو انتخابات میں ان کے مدِمقابل تھے بلکہ ماضی میں ان کے ساتھ کام بھی کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی تبدیلی ہی ہے کہ پی پی پی نے اس طرح مسلم لیگ ن کے سپیکر اور وزیراعظم کے انتخابات ساتھ دینے کا اعلان کیا جس طرح مسلم لیگ (ن) نے ابتداءمیں ان کا ساتھ دیا تھا۔ ضد کی سیاست کا خاتمہ بھی تبدیلی ہی ہے۔ بہت سی تبدیلیاں عوام کے سامنے ہیں نیا سپیکر‘ نیا وزیراعظم‘ نئی حکومتیں‘ بہت کچھ نیا نیا سا لگ رہا ہے لیکن ابھی تک یہ سب رہنماو¿ں کی حد تک ہے۔ عوام کی سطح پر تبدیلی کا ابھی انتظار ہے۔ عوام کی خواہش چھوٹی چھوٹی ہیں بس یہ کہ پنکھا چلتا رہے‘ چولہا جلتا رہے تن اور سر ڈھکا رہے محنت کا اتنا معاوضہ مل جائے کہ قرض اور مرض میں پریشانی نہ ہو۔ امن وامان کا ساتھ گھر سے قبرستان تک کا سفر ممکن ہو جائے۔ یہ غالب کا زمانہ تو ہے نہیں جس نے کہا تھا کہ نہ لٹتا دن کو تو کیوں رات کو یوں بے خبر سوتا.... رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو۔ اب تو لوٹے جانے والے اور ان کے گارڈ دونوں عذاب میں ہیں۔ ایک بنک کے گارڈ کو میں نے آنسو بہاتے یہ کہتے سُنا۔ جب جان ہتھیلی پر رکھ کر اربوں روپے کے کاروباری مراکز (بنک) کی حفاظت کرنے والے گارڈ کو انتظامیہ چھ ہزار سے کچھ اوپر نیچے تنخواہ دے گی تو وہی ہوگا جو ہو رہا ہے‘ دیانتدار کڑھتے رہتے ہیں‘ بددیانت ڈاکوو¿ں کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ پرائمری ٹیچروں کے ساتھ تربیت اور معائنے کے نام پر گزشتہ تین چار برسوں میں جو ہو رہا ہے وہ الگ کہانی ہے۔ سو عوام کے چھوٹے چھوٹے مسئلے ان کے گھروں کی طرح چھوٹے چھوٹے خواب معمولی الجھے ہوئے حالات جو تبدیلی چاہتے ہیں اوپر کی سطح پر تبدیلی آگئی ہے۔ حکومت کی چہروں کی‘ اب یہ تبدیلی نیچے کی سطح پر آئی اندھیرے دور ہوئے‘ کاروبار چل نکلا تو سمجھا جائے گا کہ تبدیلی آرہی ہے اور نہ محض اوپر کی تبدیلی Back Fire بھی کر سکتی ہے ۔ میاں جی بڑا کام یہی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن