بجٹ کا گورکھ ”دھندہ“ گزارشات بندہ اور عوامی پھندہ
ایک ایسی حکومت جس کی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہو اور اقتدار کی نئی نکور چوسنی کا چسکا ابھی زبان آشنا ہوا ہی ہو، اسے بجٹ کا برق اثر جھٹکا لگا دیا جائے تو نہ اقتدار کی شہد لگی چوسنی کا لطف باقی رہتا ہے اور نہ ہی کوئی مبارکبادی جھولا اس کے کسی خواب کو خراب خرگوش بنا سکتا ہے۔ نواز شریف کی نوزائیدہ حکومت ابھی مبارکباد جھولا جھول رہی تھی کہ جھولے کو جھٹ بجٹ کا جھٹکا لگا دیا گیا۔ بجٹ کی تیاری کیلئے وقت بہت کم اور بجٹ خور قوتوں سے مقابلہ بہت سخت تھا۔ لہٰذا اسحاق ڈار کو وزیرخزانہ بنا کر بجٹ کا گورکھ دہندہ ان کے سپرد کر دیا گیا۔ ڈار صاحب نے ایک دن اور دو راتیں بیگم کی بجائے بجٹ کے ساتھ گزاریں اور زیر تکمیل بجٹ کی ”چولیں“ اپنے حساب سے درست کیں، اسکے چہرے پر نون لیگ کا منشوراتی میک اپ لگایا اور قومی اسمبلی میں اس کی رونمائی کر ڈالی کچھ اراکان اسمبلی نے نوزائیدہ بجٹ کو ہونہار بچہ قرار دیا اور اسکے چکنے چکنے پاتوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے۔ کچھ ارکان نے اسے امریکہ کا ٹسٹ ٹیوب بے بی قرار دیا اور فتویٰ لگایا کہ یہ بچہ امریکہ یا سعودیہ کے امدادی دودھ پر پل کر ہی پالنے سے باہر آ سکتا ہے۔
نودمیدہ حکومت کے نوزائیدہ بجٹ کے خصائص اور نقائص کا جائزہ لینے کے سٹیزن کونسل آف پاکستان نے بھی داد و بیداد کی ایک محفل سجائی، فوجی ذہانتی ادارے (انٹیلیجنس) کے ایک ذہین سابق افسر میجر شبیر نے یہ خوش خبری ایجاد کی کہ اس بجٹ نے ہر پاکستانی کو امیر قرار دیدیا ہے۔ پروفیسر مشکور صدیقی اور پروفیسر نصیر چودھری نے چونک کر ان کی طرف دیکھا تو وہ مسکراتے ہوئے بولے۔ وزیرخزانہ نے کہا ہے کہ غریبوں پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا جبکہ 17 فیصد جی ایس ٹی نے ان تمام اشیاءکی قیمتیں بڑھا دی ہیں جو غرباءکے نان نفقہ کالازمی حصہ ہیں۔ اگر غریبوں پر کوئی ٹیکس نہیں ہے تو تمام پاکستانی از خود امیر قرار پاتے ہیں۔ یہ امیرانہ منطق سن کر قانون دان رانا امیر احمد خان نے قانونی موشگافیوں کے پرانے ہتھیار سے نئے بجٹ کو خوب چرکے لگائے۔ سینئر وکیل فیروز شاہ گیلانی نے بجٹ کو افسر شاہی جادوگری قرار دیا۔ پس ماندہ طبقات کےلئے فکر مند رہنے والے احمد وسیم نے بجٹ کے بعد مہنگائی میں اضافے کو ہدف تنقید بنایا اور دل کے پھپھولے پھوڑے، ہم حیرت سے سب کا منہ دیکھ رہے تھے....
کیا تھی اُمید اور کیا نکلا
جو بھی نکلا وہ دل جلا نکلا
دردِ دل رکھنے والے رمضان می¶ ایسے شریک محفل تھے جنہوں نے نئے بجٹ کو پاکستان دوست بجٹ ہونے کا اعزاز بخشا، رمضان می¶ کی بات سے بات نکالتے ہوئے ہم نے بھی کچھ باتیں کیں اور جی ایس ٹی کے سبب مہنگائی میں اضافے پر تنقید بدست، دوستوں سے اتفاق کے بعد ان کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کا عوامی پھندہ اپنی جگہ لیکن گزارش بندہ یہ ہے کہ سابقہ حکومت نہ صرف خزانہ تقریبا خالی کر گئی تھی بلکہ اس پر 14 ہزار ارب روپے کا قرض بھی واجب الادا ہے۔ حکومتی رخصتی کے فوراً بعد ایک ہفتے میں سٹیٹ بنک کے زرمبادلہ ذخائر میں10 کروڑ30 لاکھ ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ اس دیوالیہ پن کے پیش نظر 34 کھرب روپے کے موجودہ بجٹ میں حکومتی ارکان اور افسر شاہی کی استثنائی عیاشیوں پر قدغن لگا دی گئی ہے تمام وزراءکے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کا چالیس ارب روپے کا خطیر صوابدیدی فنڈ ختم کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم ہاﺅس اور سیکرٹریٹ کے اخراجات میں 46 فیصد کمی کے علاوہ کل حکومتی اخراجات میں 30 فیصد کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ صدر، وزیراعظم، کمانڈر انچیف، وزرائے اعلیٰ اور وی آئی پی لوگوں کو حاصل ڈیوٹی فری گاڑیاں منگوانے کا حق اور انہیں ملنے والے الاﺅنسز پر ٹیکس استثنیٰ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ 34 مختلف وزارتوں، اداروں اور محکموں کے تمام خفیہ فنڈ ختم کرکے ان حسابات میں موجود رقوم خزانے میں جمع کروانے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔ 60 لاکھ سے زائد آمدن والے افراد پر 25 فیصد ٹیکس لاگو کیا گیا ہے۔ بنکوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کھاتہ داروں کی جمع شدہ رقوم کی تفصیل مہیا کریں۔ اعلان کیا گیا ہے کہ جون2016ءتک 14 ہزار ارب روپے کے قرض میں 8.3 فیصد کمی جبکہ مالیاتی خسارے کو ساڑھے آٹھ سے کم کر کے چار فیصد تک لایا جائے گا۔ بجلی کی دستیابی کیلئے 70 ارب کا گردشی قرضہ ساٹھ دن میں ختم کیا جائے گا۔ ابھی بجٹ داستان باقی تھی کہ اچانک محفل آرا خاتون شازیہ اقبال نے ہمیں ٹوکا اور بولیں کہ عوامی پھندے سے بچنے کیلئے کہیں وزیرخزانہ نے اندر کھاتے آپ کو اپنا وکیل تو مقرر نہیں کر دیا۔ اس پر بے ساختہ اجتماعی قہقہ پڑا اور ہماری ادھوری تقریر ادھوری رہ گئی....ع
کون سنتا ہے فغانِ درویش