• news

ملک کا بیڑہ غرق ہو گیا ‘ قوم کو بھکاری بنانے کی بجائے بینظیر انکم پروگرام سے بجلی دی جا سکتی تھی : سپریم کورٹ

اسلام اباد (نمائندہ نوائے وقت+آن لائن)سپریم کورٹ نے بجلی بحران اور لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس میں حکومت ،پپکو،این ٹی ڈی سی سے بجلی پید انہ کرنے والے لائسنس یافتہ آئی پی پیز کی فہرست طلب کرتے ہوئے کہاہے کہ اگریہ بجلی پیدا نہیں کررہے تو ان کے لائسنس منسوخ کرکے اوپن نیلامی کیوں نہیں کی جاتی؟چند لائسنس ہولڈرز نے مفاد کی خاطر اپنی اجاداری قائم کرکے پوری قوم کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے دوچار کر رکھا ہے، واپڈا بقایاجات کی وصولی کاکام این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کودیاجائے توشاید بہتری آجائے اس طرح وفاق کے پاس ادائیگیوںکے لئے رقم موجود ہو گی تو بجلی کی پیدوار بھی جوڈیڈسرکل سرمایہ کی وجہ سے کم ہے وہ بڑھ جائے گی صوبوں کوقومی گرڈٹرانسمیشن کے ذریعے فراہم کردہ مقدارکے مطابق بجلی کا بل وصول کیاجائے جو ادئیگی نہیں کریں گے وہ بجلی بھی استعمال نہیں کر سکیں گے ،عدالت نے چیف سیکرٹری کے پی کے سے جاری کردہ لائسنس کے ذریعے سستی بجلی پیداکرنے والے لائسنس ہولڈرز کی فہرست طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ عدالت کو بتائیں کہ اس حوالے سے کتنے مقدمات ،لیزمقدمات عدالتوں میں التواءکا شکار ہیں؟ عدالت نے صنعتوں ، گھریلوصارفین اوردیگرمختلف شعبوں کو ضرورت کے مطابق یکساں منصفانہ بجلی فراہمی کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 26 جون تک ملتوی کردی ہے۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے یہ بجلی کا مسئلہ بھی عدالت ہی حل کرے گی حکومت نے تو کچھ نہیں کرناسالوں شارٹ فال اور لوڈشیڈنگ کا سنتے اور دیکھتے آرہے ہیںعدالت کو بتاےا جائے کیس صوبائی گورنمنٹ کے ذمہ کتنے واجبات ہیں؟یکساں تقسیم کے معاملے پر سب فریقین کو بلاکر ECC کی میٹنگ میں یہ مسلئہ حل ہونا چاہیے تھا، لوکل گورنمنٹ نظام ہوتا تو عوامی نمائندے بجلی چوروں کو پکڑکرواپڈا اور فورسز کے حوالے کرتے مگر اب عوام کی آواز اقتدار اعلی تک کون پہنچائے ؟ جسٹس اعجاز احمد چوہدری نے کہ ملک کا بیڑہ غرق ہوگیا۔ اگر بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کے فنڈز واپڈ ا واجپات کی ادائیگی کیلئے استعمال کئے جاتے تولوگوں کوبجلی ملتی کارخانے چلتے اورلوگوںکوروزگار کے مواقع ملتے 12سو روپے کی ماہانہ امداد نے ساری قوم کو بھکاری بناکر رکھ دےا ہے اس کے بدلے اگر انڈسٹری چلاکرنوکرےاں دی جاتیں تو آج کتنے خاندان خود کفالت کی زندگی گذار رہے ہوتے۔ بارہ سو لینے والا 5 ہزار کماتا ہے۔ بدھ کوچیف جسٹس افتخارمحمد چودھر ی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی اس موقع پرایم ڈی پیپکواوروزرات پانی وبجلی کے ایڈیشنل سیکرٹری ضرغام اسحاق نے پیش ہوکرعدالت کوصوبوں کی بجلی کی طلب ورسد کے بارے میں بتایاکہ پنجاب کی یومیہ ضرورت 12080میگاواٹ ہے جبکہ اسے 7714 میگا واٹ سپلائی دی جارہی ہے اسی طرح،کے پی کے 2700 ڈیمانڈ اورسپلائی دی 1870 میگاواٹ ،سندھ کی ڈیمانڈ2200 ہے اور اسے بجلی کی سپلائی 1403میگا واٹ دی جا رہی ہے،بلوچستان کی ڈیمانڈ 1200میگاواٹ ہے اور اسے 701 میگا واٹ دی جارہی ہے عدالت کے استفسارپرانہوں نے بتایاکہ 300 میگاواٹ اے جے کے کوجارہی جبکہ ان کی ڈیمانڈ 980میگاواٹ ہے جبکہ آزاد کشمیراپنی باقی ضرورت مقامی پیداوارسے پوری کرتاہے اسلام آباد کی ڈیمانڈ 1600 ہے جبکہ اسے 1169میگا واٹ بجلی سپلائی دی جارہی ہے پورے ملک کے لائن لاسز 22 فیصد ہے پنجاب میں لائن لاسز کی شرح فیصد سب سے کم ہے33 ملین کی ادئیگی ہوچکی ہے جس سے 2 پاور پلانٹ لبرٹی اور حبکو نارووال جلد بجلی کی پیداور دینا شروع کردیں گے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسارکیاکہ وفاق نے لاتعداد افراد کوبجلی پیداکرنے کیلئے لائسنس جاری کئے ہیںلیکن وہ اپنے پلانٹ نہیں چلارہے عدالت کوبتایاجائے کہ کس صوبے میں لائسنس حاصل کرنے والے لوگ پیداوارنہیں دے رہے ضرغام اسحاق نے کہا کہ بہت ساری کمپنیاں ہیں جولائسنس کے باوجود پیداوار نہیں کرتیں۔اس موقع پرسیمنٹ کے شبعبہ سے وابستہ ایک کاروباری شخصیت کی جانب سے عدالت کوبتایاگیاکہ ان کے پلانٹ کم بجلی فراہم ہوتی تھی لیکن عدالت کوغلط معلومات فراہم کرنے پر ہمارے پلانٹس کی بجلی بند کردی گئی جس کے بعدہمارے پلانٹ رک گئے ہیں سلیمان اکرم راجہ نے عدالت کوبتایاکہ پورے پنجاب میں سارے سیمنٹ پلانٹ درست طورپرچل رہے ہیں لیکن صرف اس گروپ کے تین پلانٹ کے ساتھ پتہ نہیں کیاگیم کھیلی جارہی ہے جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کوکوئی ایسافارمولا بتایاجائے جس سے سارے متعلقہ فریقین مطمئن ہوںاٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت یہ علم کسی کونہیں کہ کون سی کمپنی کتنی بجلی وصول اورکتنی آگے بیچ رہی ہے اس صورت حال کوٹھیک کرنے کیلئے ڈسکوز کی سطح پرگائیڈ لائن دیناپڑیں گے جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر یکساں نہیں منصفانہ تقسیم کی بات کی تھی اوراب توآئین کے تحت صوبے خودمختاربھی ہوچکے ہیں پھروہ کیوں اپنے طورپرپیداوارکیلئے منصوبے شروع نہیںکرتے آخرکب تک یہ صورتحال چلتی رہے گی اس طرح لوڈ شیڈنگ رہی تومعیشت بیٹھ جائے گی اگرہم مارکیٹ کواوپن کرےں تودیکھناکہ کس طرح سرمایہ کارآتے ہیں اس موقع پرعدالت کوکے پی کے کی جانب سے محمد نومان نے آگاہ کیاکہ شمالی علاقہ جات میں 30ہزارمیگاواٹ بجلی پیداکرنے کے منصوبے لگانے کیلئے مختلف لوگوں کوجگہیں لیزپردی گئی ہیں لیکن وہ خود بجلی بناتے ہیں نہ لیز چھوڑ کردوسروں کوموقع دیتے ہیںعدالتوں سے سٹے آرڈرلئے گئے ہیں جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ اگروہ کام نہیں کریں گے توقانون خودراستہ بنائے گااس لئے ہم کہتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات ضروری ہیں جوایسے لوگوں سے نمٹنے کیلئے انتہائی موثر ثابت ہوسکتے ہیں بعدازاں عدالت نے مزید سماعت ملتوی کرتے ہوئے ہدایت کی کہ لائسنس لے کربجلی نہ پیداکرنے والے لوگوں کوعدالت کوفراہم کی جائے اوراس امرکاجائزہ لیاجائے کہ واپڈا واجبات کی وصولی کاکام صوبوں کے حوالے کیاجائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صوبوں کو ذمہ داری دی جائے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن