• news

31ءکا ایکٹ غیر آئینی ہے‘ بازار جا کر دیکھیں ہر چیز مہنگی ہو گئی‘ بے یارو مددگار شہری منہ مانگے دام دے رہے ہیں: چیف جسٹس

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ/ ایجنسیاں) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ ٹیکس کی انتہائی حد مقرر کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔ انتظامی اتھارٹی ردوبدل کا اختیار استعمال کرکے اس سے اوپر نہیں جا سکتی۔ 1931ء ایکٹ کے تحت ٹیکس لگانا ہے تو آئین اورپارلیمنٹ کی کیا ضرورت ‘پاکستان کا المیہ ہے کہ یہاں جب کسی چیز کی قیمت بڑھ جائے تو اس میں کمی نہیں ہوتی، قانون سے بھاگنے والے افراد ہی عوام سے سیلز ٹیکس وصول کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جی ایس ٹی میں اضافے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت کی‘ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے جی ایس ٹی میں حالیہ اضافے اور اس کے نفاذ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے کا تعلق حالیہ بجٹ سے نہیں اسے 1931 ءکے ٹیکس ایکٹ کے تحت نافذ کیا گیا۔ جس کے تحت حکومت کسی بھی ٹیکس کو فوری نافذ یا رد و بدل کر سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم نو آبادیات میں نہیں رہ رہے، 1931ءکے بعد اب حالات کے تقاضے بدل چکے، وقت گزرنے کے ساتھ بہت سی تبدیلیاں آئیں، کیا یہ قانون بنیادی آئینی حقوق کے متصادم نہیں، ایک فیصد ٹیکس بڑھانے اور فوری نفاذ سے مہنگائی کا طوفان آیا‘ لوگوں کی جیبوں سے اربوں روپے نکل گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جی ایس ٹی سے کارروباری حضرات کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ 90 فیصد پٹرول پمپ غیر رجسٹرڈ ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا جو پٹرول پمپ اور کمپنیاں رجسٹرڈ ہی نہیں ان سے وصولیاں کیسے ہوں گی؟۔ غیر رجسٹرڈ پٹرول پمپس قانون کا بھگوڑا ہے۔ وہ صارفین پر اضافی بوجھ ڈال رہا ہے۔ غیر رجسڑڈ کمپنیاں صارفین سے رقم لے رہی ہیں لیکن یہ قومی خزانے میں جمع نہیں ہو رہی ہے وہ ٹیکس حکومت کو دینے کے بجائے خود کھائیں گے۔ نقصان تو عوام کا ہوا‘ ہم اور آپ کمرے میں بیٹھے ہیں لیکن عوام کو مہنگی چیزیں خریدنا پڑ رہی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مارکیٹ میں جا کر دیکھیں ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ لوگ بیچارے بے یارو مددگار ہیں جو منہ مانگی قیمت ادا کر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر اور حکومت صارفین کے اس استحصال کو روکے اور پاکستان میں یہ المیہ ہے کہ جس چیز کی قیمت بڑھ جائے وہ کم نہیں ہوتی۔ حکومتیں آئین اور قانون کے تحت چلتی ہیں۔ پٹرول مہنگا ہونے سے روزمرہ اشیا کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں، جن چیزوں پر چھوٹ تھی ان کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا اور یہ سب کچھ ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ہو رہا ہے‘ عدالت 1931 ءکے قانون کا جائزہ لے گی۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ حکومت نے غیر رجسٹرڈ پٹرول پمپس مالکان کے لئے دو فیصد اضافی جی ایس ٹی کا نوٹیفکیشن کیوں واپس لیا۔ اخباری رپورٹس کے مطابق نوے فیصد کاروبار غیر رجسٹرڈ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جی ایس ٹی کے فوری نفاذ سے مہنگائی کا طوفان آسکتا ہے ان کا کہنا تھا کہ جب اسمبلیاں موجود ہیں تو ایسے قانون کو کیسے جواز بنایا جا سکتا ہے عارضی قانون سازی کیلئے صدارتی آرڈیننس جاری ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ محض وزیر خزانہ کے کہنے سے ٹیکس لگ جائے ایسا نہیں ہو سکتا آئین کے تحت پارلیمنٹ کی مرضی کے بغیر صدر بھی کوئی ٹیکس نافذ نہیں کر سکتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم واضح کر چکے ہیں کہ ملک آئین اور قانون کے تحت ہی چلنا ہے آئین کے تحت عبوری ٹیکس ہی نہیں لگاےا جا سکتا ٹیکس مستقل ہوتا ہے آئین کے تحت صرف پارلیمنٹ کو ٹیکس لگانے کا اختیار ہے۔ وزیر خزانہ سمجھتے ہیں وہ ٹیکس لگا دیں گے ایسا نہیں ہو سکتا یہ عبوری ٹیکس تو آئین کے تحت لگایا ہی نہیں جا سکتا۔ حکومت نے جو ڈےکلئریشن جاری کیا ہے اس میں ترمیم کرنا پڑے گی ترمیم کے بعد بھی عدالت اس کی قانونی حیثیت کا جائزہ لے گی جو ڈےکلریشن جاری کیا گیا اس میں شیڈول چھ کا تو ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 90 فیصد پٹرول پمپ غیر رجسٹرڈ ہیں پھر ٹیکس حکومت کو کیسے ملے گا وصول کرنے والے یہ ٹیکس حکومت کو دینے کی بجائے اپنی جیبوں میں ڈال رہے ہیں ۔ اسمبلےاں موجود ہیں تو ایسے قانون کو کیسے جواز بنایا جا سکتا ہے بینچ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ محض ڈےکلریشن سے ٹیکس کیسے نافذ ہو سکتا ہے حکومت آئین کے تحت کام کر رہی ہے اسے آئین کی پاسداری کرنی چاہئے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منیر ملک سے کہا کہ عدالت ان کے دلائل سے متفق نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ٹیکس سے انکار نہیں لیکن عوام کا پیسہ اس طریقے سے نہیں لینے دیں گے۔ اپنے دلائل میں اٹارنی جنرل منیر ملک کا کہنا تھا کہ پیشگی وصولی کا قانون 1931ءمیں بنا ان کا کہنا تھا کہ قانون کے تحت حکومت کو ٹیکس لگانے یا اس میں کمی بیشی کا اختیار ہے، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہی قانون آسٹریلیا‘ یوگنڈا‘ تنزانیہ اور جمیکا میں بھی رائج ہے ان کا کہنا تھا کہ 1990ءمیں اس قانون کی ایک شق میں اضافہ کیا گیا اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ خوردنی تیل‘ مرچ‘ بیج،گنا سمیت 70 اشیاءجی اےس ٹی سے مستثنیٰ ہےں جبکہ اٹارنی جنرل منےر ملک نے وزارت خزانہ سے ہداےات لے کر عدالت مےں پےش کر دےں جن کے تحت اشےاءخوردنی اور ادوےات پر سےلز ٹےکس اضافہ کا اطلاق نہےں ہو گا جواب مےںکہا گےا ہے کہ وزارت خزانہ نے اےف آر کو وضاحت جاری کرنے کی ہداےت جاری کر دی ہے۔ وزارت خزانہ نے اےف بی آر کے ٹےکس افسران کو سخت مانےٹرنگ کی ہداےت بھی جاری کی ہے ۔وزارت خزانہ کے مطابق اشےاءخوردنی مےں پھل‘ گوشت‘ سبزےاں‘ چپاتی اور بےکری کے آئٹم شامل ہےں جبکہ دہی‘ پولٹری فےڈ‘ انڈے‘ مچھلی‘ بچوں کا دودھ‘ دالےں‘ پےاز‘ نمک اور آلو بھی ان اشےاءمےں شامل ہےں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ان کی وقفہ کے دوران سےکرٹری خزانہ سے بات ہوئی ہے سےکرٹری خزانہ نے وزےر خزانہ سے بات کی ہے جبکہ منےر ملک نے اپنے دلائل مکمل کر لےے۔ اوگرا کے وکےل سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی نےا ٹےکس لگتا ہے ٹےکس کی شرح مےں نوٹےفکےشن کے ذرےعہ کمی بےشی کی جا سکتی ہے ۔ چےف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومتی اعلامےہ کی وجہ سے لوگوں کی جےب سے اربوں روپے نکالے گئے ٹےکس وصول کرنے والے بارہ روز کا انتظار کر لےتے۔ اٹھارہ کروڑ عوام کے نمائندے پارلےمنٹ مےےں بےٹھے ہےں قانون کی منظوری پارلےمنٹ سے لےتے ہےں، ہم تو صرف تےن لوگ بےٹھے ہےں ان کا کہنا تھا کہ غلطی کسی کی تھی سزا کسی کو دی گئی کسی اعلامےہ کے ذرےعہ ٹےکس لاگو نہےں کےا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ٹیکس کی انتہائی حد مقرر کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے، انتظامی اتھارٹی ردوبدل کا اختیار استعمال کرکے حد سے اوپر نہیں جا سکتی۔ انہوں نے ریمارکس دئیے کہ قانون کے بھگوڑے غیرجسٹرڈ افراد عوام پر بوجھ ڈال رہے ہیں، سیلز ٹیکس وہ لوگ وصول کر رہے ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے، بازار چلے جائیں تو ہر چیز کی قیمت بڑھ چکی، جن چیزوں پر چھوٹ دی گئی ان کا تو نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت میں حکومتی ڈائریکٹو پیش کر دیا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سبزی، پھل، دودھ، انڈے، مچھلی اور شیرخوار کے دودھ پر جی ایس ٹی نہیں بڑھایا جبکہ نان، روٹی، ڈبل روٹی اور کھانے پینے کی دیگر اشیا پر بھی جی ایس ٹی نہیں بڑھایا گیا اگر ان اشیا پر کوئی جی ایس ٹی لیتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انتظامیہ شرح میں اضافہ کر سکتی ہے تو پارلیمنٹ میں فنانس بل کی منظوری کی کیا ضرورت ہے۔

ای پیپر-دی نیشن