• news

بے گناہ طالبات کی ہلاکت اور سانحہ زیارت

امجد عزیز بھٹی
کوئٹہ اور زیارت کے سانحات کے بعد صوبائی دارالحکومت سمیت بلوچستان میں فضاءبدستور سوگوار، ہر آنکھ اشکبار، دل افسردہ اور امید و یاس کا شکار ہے جبکہ غم و غصہ کی اس کیفیت میں عوام مسلسل اندرونی و بیرونی دشمنوں اور طالع آزماﺅں کے ہاتھوں آگ و خون میں نہلائے جانے کے باوجود عزم و استقلال کا پیکر بنے نظر آتے ہیں اور تمام تر مشکلات اور مصائب کے باوجود حالات اور انسانیت دشمنوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن انہیں آج بھی حقیقی قیادت کے فقدان کا سامنا ہے۔ موجودہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے وجود میں آنے سے جو امیدیں پیدا ہوئی تھیں وہ ابھی باقی ہیں اور لوگ ان زمینی حقائق کا بھی ادراک رکھتے ہیں جبکہ ابھی حکومتیں اپنی تشکیل کے مراحل میں ہیں اور انہیں ”سر منڈاتے اولے پڑنے“ کے مصداق ان ملک اور انسانیت دشمنوں کے سخت حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو اس ملک اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کیلئے تمام حدیں عبور کر رہے ہیں۔ زیارت جیسے قومی ورثے اور بانیء پاکستان قائد اعظم ؒ کی آخری آرام گاہ کو جس طرح بربریت کا نشانہ بنایا گیااور سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی بس میں خود کش حملہ اور بعد ازاں بولان میڈیکل کالج پر دہشت گردوں کے حملے نے جس طرح تمام انسانی، اخلاقی معاشرتی، سماجی دینی اور اسلامی روایات کا جنازہ نکال دیا ہے ، اس کی برے سے برے معاشرے میں بھی کوئی مثال نہیں ڈھونڈی جا سکتی۔ ان شرمناک واقعات پر پہلی مرتبہ عوامی سطح پر زبردست احتجاج سامنے آ رہا ہے گو کہ یہ احتجاج روایتی طرز پر نہیں ہو رہا لیکن ہر شخص اب اس خوف سے باہر آ کر ان تمام مسائل اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کا خواہاں ہے جنہوں نے ان کی زندگیاں اجیرن اور انسانی خون کی ارزانی اور بے وقعتی کی تمام حدیں عبور کر لی ہیں ۔ اب خلق خدا کی نظریں موجودہ حکمرانوں پر ہیں کہ وہ میدان عمل میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ ویسے تو وفاقی وزراءچوہدری نثار علی خان اور پرویز رشید زیارت کا دورہ کر چکے ہیں اور قومی اسمبلی میں ان کے بیانات بھی اس حد تک ضرور حوصلہ افزاءہیں کہ انہوں نے مرض کی تشخیص کی جانب درست پیش رفت کی ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس کا صحیح معنوں میں علاج بھی کر پاتی ہے یا ماضی کی حکومتوں کی طرح محض زبانی جمع خرچ تک ہی محدود رہتی ہے۔ ویسے تو سابقہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کو کہیں نظر آتی تھیں اور پانچ سال قوم مضحکہ خیز اور انتہائی کرب ناک حکمرانی کے عذاب سہتے رہے ہیں مگر اب وہ ایسے کسی عذاب کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ زیارت میں قائد اعظم کی آخری آرام گاہ کی شہادت اور کوئٹہ میں بے گناہ طالبات، نرسوں، ڈاکٹر، ڈپٹی کمشنر اور فورسز کے جوانوں کی شہادت کے بعد مسئلہ بلوچستان پوری قوت سے قومی اور عالمی سطح پر ابھر کر سامنے آیا ہے ۔ عالمی برادری کی جانب سے بھی ان واقعات کی شدید مذمت جاری ہے، واضح رہے کہ 15جون ہی کے روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے اجلاس میں ناراض بلوچ طبقات کے نمائندوں کی جانب سے بھی اپنا موقف پیش کیا گیاہے،اور اسی شدت سے قومی اسمبلی میں سینئر قوم پرست رہنما پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے قائد محمود اچکزئی کے خطاب کی بازگشت بھی سنائی دی ہے۔ جبکہ مرکز میں موجودہ حکومت نے بلوچستان کی گزشتہ تقریباً ساڑھے چار سو سالہ پرانی طرز حکمرانی کی تبدیلی کے نتیجے میں پہلی مرتبہ متوسط طبقے کی نمائندہ قیادت کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی ہے۔موجودہ صوبائی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پیدا ہونے والی ہم آہنگی کی فضا کو بھی اس حوالے سے چیلنجز درپیش ہیں تاہم ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جیسے کلین مین اور ہمت و حوصلہ رکھنے والے وزیر اعلیٰ اور وفاقی اور صوبائی سطح پر حقیقی عوامی نمائندگی کی حامل مضبوط اعصاب کی قیادت کا بھی اب یہ ایک کڑا امتحان ہے کہ وہ مسئلہ بلوچستان کو کس انداز میں حل کر پاتے ہیں۔ نئی قیادت کوجبکہ مکمل عوامی حمایت بھی حاصل ہے اور پہلی مرتبہ پوری قوم یکجا ہو کر مصروف عمل نظر آئی ہے، اس دوران اگر ہم نے یہ موقع ضائع کر دیا تو پھر شاید ہم کبھی بھی ان عذابوں سے نہ تو نجات حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی حقیقی منزل کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔ صوبائی حکومت کو صوبائی کابینہ کی تشکیل اور آئندہ مالی سال 2013-14ءکے بجٹ کا بھی مرحلہ درپیش ہے جو تادم تحریر مشاورت کے مراحل میں ہے تاہم ان سطور کی اشاعت تک ممکن ہے کہ یہ مراحل طے ہو جائیں۔

ای پیپر-دی نیشن