خاکی اور خاکستری سیاست کی کشمکش
محمود اچکزئی نے قومی اسمبلی میں تقریر کی۔ چودھری نثار نے ٹی وی انٹرویو میں باتیں کیں۔ رحمان ملک نے ایک بیان میں کہا۔ ان تینوں اظہار خیال میں تقریباً ایک ہی بات محسوس ہوئی کہ عسکری اور سیاسی قیادت میں فاصلے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دونوں طرف سے شک اور اشتعال پیدا کیا جا رہا ہے۔ یہ کیفیت پچھلی حکومت میں بھی پیدا کی جاتی رہی ہے مگر اب تو کھل کھلا کر معاملات پھیلائے جا رہے ہیں۔ جنرل کیانی الیکشن کے فوراً بعد بغیر کسی پروٹوکول کے اشفاق پرویز کیانی کی حیثیت میں نواز شریف کے پاس گئے اور کئی گھنٹوں تک باتیں کیں۔
محمود اچکزئی ذاتی طور پر مجھے پسند ہیں۔ دبنگ دلیر اور بے باک آدمی ہیں۔ وہ کندھے پر چادر رکھتے ہیں جو ہماری دہقانی روایات کا حصہ ہے۔ انہیں معلوم ہو گا کہ جنرل کیانی کسی بھی سیاستدان سے زیادہ جمہوریت پسند ہیں۔ چودھری نثار نے جنرل کیانی کی بہت تعریف کی ہے مگر جنرل پاشا کی باقیات کے فوج میں موجود ہونے کا طعنہ بھی دیا ہے۔ یہ طعنہ براہ راست جنرل کیانی کو ہے کہ ان کا مشورہ آئی ایس آئی کے چیف کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ سیاستدان ابھی تک جرنیلوں سے کیوں گھبراتے ہیں اگر ان کی کارکردگی اچھی ہو فلاحی اور عوامی ہو تو لوگ کسی جرنیل کو قبول نہیں کریں گے۔ موجودہ جمہوری حکومت کا پہلا بجٹ ووٹرز کو خفا کرنے کے لئے کافی ہے۔ اسحاق ڈار کے لئے پھر کبھی بات ہو گی۔ یہ بجٹ فوج کے مشورے سے لایا گیا ہے۔ یہ مشورے کہیں اور سے آتے ہیں۔ اب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست رابطہ سیاستدانوں اور حکمرانوں کا ہے۔ حکمران خواہ جرنیل ہو۔
محمود اچکزئی نے جمہوریت کے خلاف کسی مداخلت کے خلاف یکجا ہونے کی ہدایت سیاستدانوں کو دی۔ پچھلی حکومت بھی جمہوریت کے خلاف موہوم اندیشے کا ڈھنڈورہ پیٹتی رہی مگر پانچ سال کی مدت پوری ہو گئی۔ اس میں نواز شریف کا حصہ بھی ہے۔ ہر حکومت کے خلاف کوئی جائز بات بھی ہوئی تو اسے بھی جمہوریت دشمنی کہا گیا۔ محمود اچکزئی کو کیا خطرہ ہے؟ چودھری نثار نے کہا کہ اچکزئی صاحب ایجنسیوں کے پرانے ڈسے ہوئے ہیں۔ ان کے تلخ تجربات میں ان کے تحفظات دور کریں گے۔ یہ تحفظات کس سے دور کروائے جائیں گے۔ یہ بڑی ذومعنی باتیں ہیں۔ چودھری نثار نے فوج کی تعریف بھی کی ہے اور تنقید بھی کی ہے۔ یہ خاصی متضاد گفتگو تھی۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ خفیہ اداروں میں ہم آہنگی کی بجائے مقابلے کی فضا قائم ہے۔ اس رجحان سے خوفناک مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ جنرل کیانی اور خفیہ اداروں کے سربراہوں سے ملاقات کریں گے۔ یہ ملاقات کس کی ہدایت پر ہو گی۔ جنرل کیانی کی ملاقات نواز شریف سے نتیجہ خیز نہیں تھی؟ یہ بھی انہوں نے کہا کہ پاک فوج پاکستان پر جان نچھاور کرنے والا ادارہ ہے۔
چودھری نثار کے یہ خیالات قابل تعریف ہیں مگر مسئلہ کہاں ہے؟ غیر ملکی طاقتیں جو پاکستان کو برباد کرنا چاہتی ہیں ان کے خیال میں صرف ایک ہی ادارہ ہے جو ابھی تک بچا ہوا ہے۔ میں سیدھی سیدھی بات کروں کہ پاک فوج کو تباہ کرنا (خدانخواستہ) بھارت کا ایجنڈا ہے اور اس کی سرپرستی امریکہ یورپ اور اسرائیل کر رہے ہیں۔ اب پتہ چلنا ہے کہ نواز شریف کی سنجیدگی کیا ہے۔ پہلے بھی چودھری نثار کے مشورے پر جنرل مشرف کو آرمی چیف لگایا گیا تھا اب بھی آرمی چیف شاید اسی طرح لگایا جائے گا۔ چودھری صاحب نے الطاف حسین کی ذاتیات کو چھیڑا تو پھر انہوں نے نواز شریف کے ذاتی معاملات پر باتیں بنائیں۔ دوستوں کو نواز شریف کے لئے مشکلات اور پریشانیاں پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اب بھی ہمیں تو سیاسی اور عسکری قیادت میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا۔ چودھری نثار عسکری قیادت کے حوالے سے محمود اچکزئی کے تحفظات دور کر سکتے ہیں تو نواز شریف اور شہباز شریف کے کیوں نہیں کر سکتے۔
قائداعظم کی رہائش گاہ پر حملہ ان کی یادوں پر حملہ تھا۔ ان کی نشانیوں پر حملہ تھا۔ ایک نشانی قائداعظم کا پاکستان بھی ہے۔ اس حملے کے لئے اچکزئی صاحب اسٹیبلشمنٹ پر بری طرح برس پڑے۔ نجانے وہ گرجے کس پر تھے۔ بادل پہلے گرجتے ہیں پھر برستے ہیں۔ اچکزئی صاحب نے کہا کہ دو تین سال میں اسٹیبلشمنٹ کو لگام نہ دی گئی تو بھاڑ میں جائے اسمبلی اور اس کی تنخواہ۔ یہ الفاظ انہوں نے اویس لغاری کی توجہ دلانے پر واپس لے لئے۔ برادرم جاوید ہاشمی کے لئے پریشان ہیں مگر سارے بہادر آدمی اپنے الفاظ واپس لے لیتے ہیں۔ ساری اسمبلیاں اسٹیبلشمنٹ سے مل کر کام کرتی ہیں۔ اب بھی کریں گی۔ عدالتوں نے جرنیلوں کی حمایت کی تو اسمبلیوں نے بھی اس سے کم حمایت نہیں کی۔ یہ سب کچھ محمود اچکزئی کے سامنے ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا۔
میں سارے آمر جرنیلوں کے خلاف قلم کا جہاد اپنے مرشد مجید نظامی کی قیادت میں کرتا رہا ہوں۔ ان سیاستدانوں کے خلاف بھی سینہ سپر رہا جو آمر جرنیلوں کی سرپرستی میں آئے اور ان کے ماتحت رہے۔ اچکزئی صاحب نے کہا کہ میں آج بھی قومی اسمبلی میں جرنیلوں کے ساتھ کام کرنے والے سیاستدانوں کو دیکھ رہا ہوں۔ وہ اب بھی جمہوریت کا نعرہ لگانے والوں کی پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔ ہر دور میں لوٹے سیاستدانوں کی پذیرائی ہوئی ہے۔ اچکزئی صاحب کہتے ہیں کہ ہماری ایجنسیاں قابل ہیں وہ گدلے پانی میں سوئی ڈھونڈ لیتی ہیں لیکن ملک میں امن و امان نہیں ہے۔ یہ سوئی تو امریکن بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ڈرون حملے ٹھیک نشانے پر لگاتے ہیں جس میں اکا دکا مطلوبہ آدمی کے علاوہ معصوم بچے اور عورتیں بھی ہوتی ہیں مگر کابل میں امریکی سفارتخانے کے سامنے خودکش حملہ ہو جاتا ہے۔ ابھی کل ہی افغانستان میں چار امریکی قتل ہوئے ہیں۔ ان کا افسوس بھی اچکزئی صاحب کریں۔ ہم نے ایٹم بم فروخت کیا۔ یہ ٹیکنالوجی کس ملک نے فروخت نہیں کی؟ امریکہ نے تو ایٹم بم چلایا بھی ہے۔ امریکہ صرف ہمارے خلاف کیوں ہے؟ ”فاٹا میں امریکہ کی ہدایت پر روس کے خلاف 95 ہزار شدت پسندوں کو ٹریننگ دی گئی“ زیارت پر حملہ انہی لوگوں نے کیا ہے۔ مجاہدین دہشت گرد ہو گئے ہیں۔ پھر دہشت گردوں کو مجاہدین بنا لیا جائے گا۔ امریکہ اب روس کی طرح پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات اچکزئی صاحب خوب جانتے ہیں۔
وہ سپیکر نہ بنے ان کا یہ جملہ میں نے کئی بار لکھا ہے کہ میں نواز شریف کا دوست رہنا چاہتا ہوں۔ یہ جرات اظہار اور جرات انکار ہے جو کم کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ مگر اصول پسند محمود خان اچکزئی نے اپنے بھائی محمد خان اچکزئی کو گورنر بلوچستان بنوا لیا۔ ان کا ایک بھائی ایم این اے، بہنوئی ایم پی اے دو عزیز خواتین مخصوص ممبران ہیں۔ خاندانی سیاست کے لئے شریف برادران تو یونہی بدنام ہیں۔ جمہوریت کی کئی قسمیں ہمارے ہاں ہیں۔ محمود خان کا کس جمہوریت کی طرف اشارہ ہے۔ ایک فوجی جمہوریت بھی ہوتی ہے۔ اس میں سیاستدان شامل ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ آج بھی ربڑ سٹمپ ہے۔ بجٹ بھی بنوایا گیا ہے ”امریکہ پاگل نہیں کہ فاٹا میں لاکھوں کے ڈرون گراتا ہے تو پاگل کون ہے؟ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ ہمارے پاس وقت محدود ہے اور دنیا ہماری دشمن ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کا کام ہے کہ وہ زیارت کی حفاظت کرتی۔ وہ تو فوج سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھنا چاہتے۔ حکمران اور افسران کی اپنی رہائشیں تو محفوظ ہیں۔ کون ہمارے ملک میں ہے جو غیر ملکی فوج کے خلاف نہیں صرف ملکی فوج کے خلاف ہے۔ بھارت امریکہ اسرائیل اور ہر ملک اپنی فوج کی پذیرائی کرتا ہے۔ جس کے پاس طاقت نہیں اور اگر ہے تو اسے طاقت کے جینوئن استعمال سے ڈر لگتا ہے۔ ذلت اس کا مقدر ہے۔ عسکری برتری اور معاشی برتری سیاستی حکومت کے لئے بھی ضروری ہیں۔
نئی حکومت کو مبارک ہو کہ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے ہمارے اچھے اور گہرے وزیر داخلہ چودھری نثار کی بڑی تعریف کی ہے۔ اس کا یہ جملہ کہ ”وزارت داخلہ زیرک اور قابل آدمی کے ہاتھ آئی ہے“ پورا جملہ یہ ہے کہ میرے بعد وزارت داخلہ زیرک اور قابل آدمی کے ہاتھ آئی ہے۔ رحمان ملک نے صدر زرداری اور الطاف حسین کے بعد صرف چودھری نثار کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے ہدایت کی ہے کہ ”نئے وزیر داخلہ کو اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع دیا جائے“ اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ”دہشت گردوں کے خلاف مل کر کام کیا جائے“ یعنی ہمارا ”تعاون“ حاضر ہے۔ ”ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی ضرورت نہیں“ ان کا خیال ہے کہ ابھی بہت وقت پڑا ہے۔ انہوں نے چودھری نثار اور خفیہ ایجنسیوں کی برابر برابر تعریف کر دی ہے؟ ”آئی ایس آئی اور ایم آئی کا کردار بلوچستان میں بہت اچھا رہا“ اسی لئے ملک صاحب نے بار بار کہا کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے۔ یہ بھی سمجھا دیا کہ ہم نے تو ان تمام ہدایات پر عمل کیا جو ایجنسیوں کی طرف سے دی گئیں۔