• news

سانحہ زیارت ۔۔ بڑی بدقسمتی

 ایک طرف مہنگائی‘ لوڈشیڈنگ کے ستائے عوام پر ”قومی بجٹ“ بھاری ثابت ہوا دوسری طرف ”کوئٹہ کے واقعات“ نے دلوں کو بیحد غمگین‘ مایوس کردیا ”ڈپٹی کمشنر سمیت 14 معصوم طالبات کی شہادت ایک المناک حادثہ ہے۔ سب واقعات کی سنگین نوعیت‘ دکھ کی سطح اپنی جگہ مگر ”زیارت ریذیڈنسی“ پر حملہ کسی بھی طور ہضم نہیں ہونے والا‘ نہیں بھولنے والا‘ ہر اہل درد‘ محب وطن شدید غم و غصہ کی کیفیت میں ہے۔ یہ پاکستان کی ایک ”تاریخی علامت“ تھی جس کو نشانہ بنا کر ”دشمنوں“ نے کوئی اچھا پیغام نہیں دیا‘ بہت بدبخت ہیں وہ لوگ جو اس سازش میں بلواسطہ یا بلاواسطہ شریک و معاون بنے۔ ایسے لوگوں کو انکے گھروں سمیت خاکستر کر دینا چاہئے۔یہ ملکی اساس‘ وحدت کو لاحق خدشات‘ خطرات میں ہولناک اضافہ ہی نہیں بلکہ بہت بڑی بدقسمتی ہے۔ یہ ہمارے قومی وقار پر کھلم کھلا حملہ ہے۔ ”قائداعظم“ کے زیراستعمال تمام اشیاءجل کر راکھ ہو گئیں مگر ”مقامی حکام“ سوئے رہے‘ یقین مانئے وہ پاکستانی بھی بیحد پریشان ہیں جو سیاست کی الف ب بھی نہیں جانتے کیونکہ یہ حملہ ایک عمارت پر حملہ نہیں تھا دشمنوں نے اسی طرح بڑی چھان پھٹک‘ سوچ سمجھ کر ”اس عمارت“ کا انتخاب کیا ہے جس طرح پنڈی میں ”جی ایچ کیو“ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ مقصود ہماری سلامتی‘ قومی وقار سے جڑی علامتوں کو ہدف بنانا تھا ”حالیہ حملہ ہماری محبتوں کے محور‘ واحد و مرکز اول متفقہ ”قائداعظم“ کی آخری دنوں کی قیام گاہ بنی۔ اس واردات کے دو ممکن پہلو یہ ہیں ایک تو یہ کہ ہم تمہاری کسی بھی محبت‘ کمزوری‘ وقار کو کہیں بھی کسی بھی وقت نشانہ بنا سکتے ہیں اور تم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ (چاہے تیاری‘ عزائم کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں) اس سوچ کے تحت ”حملہ آور“ کامیاب رہے دوسرا پہلو یہ ہے کہ دشمن اس بزدلانہ کارروائی کے ذریعے یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ہم میں بطور قوم اپنے ملک‘ اپنے ”قومی ہیرو‘ قومی ورثہ“ بابت محبت‘ احترام کی کتنی چنگاری باقی بچی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ سنگین ”دلخراش واردات حسب معمول شدید مذمت کی زد میں ہے“ حالات الفاظ سے آگے کا تقاضا کر رہے ہیں۔ یہ ہماری ”نظریاتی اساس پر حملہ ہے ”ایسا کرنیوالے ہرگز مسلمان یا پاکستانی نہیں ہو سکتے“ اب سب اداروں‘ ذمہ دار حکام کو دشمن کی صفوں میں گھس کر ان وحشی اور دائرہ انسانیت سے خارج گروہوں‘ افراد کو کیفر کردار تک پہنچانا ”جہاد“ مانند فرض ہو چکا ہے۔
 ”قومی پرچم“ سرنگوں کرنے کی بجائے دشمنان قوم و ملک کے ”سر“ سرنگوں کرنے کی ضرورت ہے ’مذمتی بیان‘ پارلیمان سے متفقہ قراردادوں سے زیادہ ضروری ”فوری عمل‘ مکروہ افعال اعمال کی سرکوبی ہے“ ”یوم سوگ“ اب ہم کو نہیں‘ دشمنوں کو منانا چاہئے‘ نہیں بھولنا چاہئے کہ ”پاکستان“ پچھلی ”دو دہائیوں“ سے ایک ناپاک‘ مکروہ عزائم کی عکاس ”گریٹ عالمی گیم“ کا نشانہ بنا ہوا ہے اس ”گیم“ کا ”آخری اوور“ شروع ہو چکا ہے۔ اب لازم ہے کہ اس سازش میں معاون ”قومی و مقامی افراد“ کی خصوصی طور پر سخت ترین سزا کے ذریعے سرکوبی کی جائے اور یہ ضروری نہیں کہ ہر حملہ کے بعد سکیورٹی بڑھانے کی یہ اب تک کی ایکسرسائز میں ایک فضول مشق بن چکی ہے۔ حالات و واقعات کو سامنے رکھیں تو ہر لمحہ ہر جگہ بس ضرورت چوکس رہنے کی ہے سرکاری حکام‘ وزراءکو درکار سکیورٹی سے انکار ممکن نہیں مگر اب ضروری ہے کہ غیر معمولی سائز حجم کو کم کرکے عوام اور عوامی مقامات کی حفاظت کو بھی ہر ممکن حد تک خطرات سے پاک کیا جائے ”مذمتی الفاظ کے برعکس عمل وقت کا اولین تقاضا ہے“ ایک قومی ورثہ پر حملہ باعث تشویش ہی نہیں‘ ڈوب مرنے کا مقام ہے“ اب وقت ہے کہ ہم سدھر جائیں اور ”عیار‘ مکار دشمنوں“ کے مقابلے میں متحد‘ پرعزم ہو جائیں“

ای پیپر-دی نیشن