فیصل آباد انڈسٹریل سٹیٹ کا منصوبہ کب مکمل ہو گا؟
پنجاب کا 8کھرب 71ارب روپے کا بجٹ برائے مالیاتی سال 2013-14ءپیش کر دیا گیا ہے۔ بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگراموں پر خرچ کرنے کیلئے 290ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس میں سے جنوبی پنجاب پر 93ارب روپے خرچ ہونگے۔ پنجاب کے اس بجٹ میں فیصل آباد، ملتان اور راولپنڈی کو لاہور کے مساوی سہولیات دینے کیلئے 10ارب روپے خرچ کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے جبکہ رحیم یار خان، بھلوال اور وہاڑی میں انڈسٹریل سٹیٹ بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔ فیصل آباد، لاہور اور ملتان میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالٰہی کے دور میں انڈسٹریل سٹیٹ قائم کئے جا چکے ہیں۔ لاہور میں سندرانڈسٹریل سٹیٹ کے نام سے انڈسٹریل سٹیٹ کے منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کیا جا چکا ہے لیکن فیصل آباد انڈسٹریل سٹیٹ کے منصوبے پر کروڑوں اربوں روپے خرچ کئے جانے کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف اپنے اقتدار کے سابقہ پانچ سالوں کے دوران کچھ بھی نہ کر سکے اور عملاً اس منصوبے کو بری طرح ناکام کیا گیا۔ فیصل آباد انڈسٹریل سٹیٹ موٹروے ساہیانوالہ انٹرچینج ، کھرڑیانوالہ اور کینال روڈ کے سنگم پر واقع ہے۔ اس انڈسٹریل سٹیٹ کو اس مقصد کیلئے قائم کیا گیا تھا کہ فیصل آباد جو کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لحاظ سے پاکستان کا مانچسٹر کہلاتا ہے اس شہر عظیم کے اندر قائم ملوں اور کارخانوں کو شہر سے باہر منتقل کرنے کی غرض سے انڈسٹریل سٹیٹ کے منصوبے سے استفادہ حاصل کیا جائیگا لیکن وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کو شاید یہ منصوبہ اس لئے زیادہ پسند نہیں آیا کہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے رانا ثناءاللہ خاں اور عابد شیرعلی کے علاوہ مسلم لیگ(ن) کے کسی بھی رکن قومی یا صوبائی اسمبلی نے آج تک ان سے اس منصوبے کے بارے میں بات کرنے کی زحمت یا جرات گوارا نہیں کی اور خود میاں محمد شہبازشریف اس منصوبے کے روح رواں چوہدری پرویزالٰہی کے ہونے کی وجہ سے اسے ناپسند کرتے رہے حالانکہ فیصل آباد شہر کے اندر قائم پروسیسنگ ملوں اور دیگر صنعتوں اور کارخانوں نے جو اودھم مچا رکھا ہے اس پر زمینی حقائق چیخ چیخ کر تقاضا کرتے ہیں کہ خادم اعلیٰ کی خادمیت فیصل آباد تک پہنچے اور وہ فیصل آباد انڈسٹریل سٹیٹ کے منصوبے پر خرچ ہوئے ہوئے کروڑوں اربوں روپے کے ضیاع کو روکتے ہوئے اندرون شہر قائم ملوں اور کارخانوں کو شہر سے باہر انڈسٹریل اسٹیٹ میں منتقل کرنے کا بندوبست کریں۔ فیصل آباد انڈسٹریل سٹیٹ جیسا حال گارمنٹ سٹی کا بھی ہو چکا ہے مگر ہم گارمنٹ سٹی کی اسلئے بات آج نہیں کرینگے کہ یہ سٹی صوبائی حکومت نہیں بلکہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے خیر میاں محمد نوازشریف کو گارمنٹ سٹی اور وزیراعلیٰ پنجاب کو فیصل آباد انڈسٹریل سٹیٹ پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔جہاں تک پنجاب میں صوبائی دارالحکومت لاہور کے مساوی ملتان، فیصل آباد اور راولپنڈی کو سہولیات دینے کی نوید وزیرخزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمن نے سنائی ہے تو حکومت پنجاب نے ان تین بڑے شہروں اور جنوبی پنجاب کیلئے سالانہ ترقیاتی پروگراموں کی مد میں 93ارب روپے مختص کر کے اچھا قدم اٹھایا ہے کہ پورے پنجاب کے عوام اور ہر حلقے کی ایک ہی آواز ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب جب بھی میاں محمد شہبازشریف بنے ہیں وہ صوبے کا 80فیصد سے زائد ترقیاتی فنڈ اپنے شہر لاہور میں لگا دیتے ہیں اور شاید ان کا آخری دوراقتدار بھی یہی گواہی دیتا ہے جب لاہور کی ہر پوش سڑک بھی نئے سرے سے تعمیر کی گئی اور دوسرے بڑے شہروں کو ایک دو ماضی کے منصوبے دے کر چپ کروانے کی کوشش کی گئی۔ اس وقت فیصل آباد کی آبادی میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ اندرون شہر قائم ملوں اور کارخانوں کی طرف سے غیرقانونی طور پر واسا کی ملی بھگت سے زائد مقدار میں کیمیکل زدہ پانی اکثر ڈسچارج کر دیا جاتا ہے جس سے زیادہ تر سمندری روڈ اور نشاط آباد کے علاقے متاثر ہوتے ہیں۔ اس مسئلے پر قابو پانے کا واحد حل یہی ہے کہ فیصل آباد انڈسٹریل سٹیٹ میں تمام ملوں اور کارخانوں کو منتقل کر دیا جائے۔ اس انڈسٹریل سٹیٹ کی سڑکوں کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔ یہ منصوبہ ہر لحاظ سے مکمل ہے اور اگر فقدان ہے تو صرف اور صرف صوبائی حکومت کی دلچسپی کا۔ کیا خادم اعلیٰ پنجاب فیصل آباد کے شہریوں کو اپنے رواں اقتدار کے دوران یہ منصوبہ مکمل کر کے ایسا شاندار تحفہ دے پائیں گے؟ اس سوال کا جواب انہیں یقینا اپنی عملی کارکردگی سے فراہم کرنا ہے۔ جہاں تک فیصل آباد کے ارکان اسمبلی کا تعلق ہے تو وہ اپنے شہر کیلئے کبھی نہیں بولتے، صرف ان کی زبان اپنے مفادات کیلئے کھلتی ہے اور اگر کسی کو وزارت یا کوئی دوسرا عہدہ نہیں ملتا تو وہ سرسری سی بات کرنے سے بھی کنی کتراتا ہے۔ یہ اس شہر کا المیہ بن چکا ہے اس المیے کی کیا بات کریں کہ رانا ثناءاللہ پانچ سالوں تک اس صوبے کے وزیرقانون رہے اور اس شہر میں شہریوں کا دیرینہ مطالبہ یعنی ہائیکورٹ بنچ قائم نہ ہو سکا۔ اس پر ہمیں تو شرم محسوس ہوتی ہے کسی اور کو نہ ہو تو یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کو چاہیے کہ وہ اندرون شہر قائم ملوں اور کارخانوں کو شہر سے باہر یعنی انڈسٹریل سٹیٹ میں منتقل کرتے ہوئے فیصل آباد انڈسٹریل سٹیٹ کے منصوبے سے استفادہ حاصل کریں اور اس منصوبے پر خرچ کئے گئے کروڑوں اربوں روپے کا مزید ضیاع روکا جائے۔ اسی طرح انہیں چاہیے کہ فیصل آباد کینال روڈ کو سانگلہ ہل تک تعمیر کروایا جائے۔ سابق سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری افضل ساہی اس سڑک کی دو رویہ تعمیر کی سابقہ ادوار میں منظوری حاصل کر چکے ہیں بس فنڈز فراہم کرتے ہوئے عملدرآمد کرنے اور اپنے نام کی تختی لگوانے کی کمی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اگر رحیم یار خان، بھلوال اور وہاڑی میں انڈسٹریل سٹیٹ بنانے کی تجویز سامنے آئی ہے اور لاہور کے مساوی سہولیات دینے کیلئے فیصل آباد، ملتان اور راولپنڈی پر 10ارب روپے خرچ کرنے کی نوید سنائی گئی ہے تو وزیراعلیٰ پنجاب میاںمحمد شہبازشریف فیصل آباد کے شہریوں کو بھی انہیں خادم اعلیٰ پنجاب کہنے کا موقع فراہم کریں۔