امریکہ سے جنگ جاری رہے گی ‘ مطالبات پورے ہوں گے تو مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے: طالبان
قندھار+ واشنگٹن (اے ایف پی) طالبان نے دوحہ میں قائم اپنے دفتر کو میدان جنگ میں اپنی فتح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان سے تمام امریکی فورسز کے انخلا تک جنگ جاری رہے گی۔ قندھار میں اے ایف پی سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے مقامی طالبان رہنما ملا احسان اللہ نے کہا کہ ہم قطر میں طالبان آفس کے قیام کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہمیں اس کے قیام پر بہت خوشی ہے۔ اس دفتر کے قیام کے بعد ہم عالمی برادری آزاد و خودمختار ممالک سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ ہم امریکہ کو شکست دینے کی منزل کی جانب گامزن ہیں ہم ان کے قبضے سے افغانستان کو آزاد کرا کے خود اپنے ملک کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں۔ ضلع کنڑ کے ضلع غازی آباد میں ایک طالبان مجاہد نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے غیر ملکی قبضے کےخلاف جنگ لڑی ہے جب ہمارے مطالبات پورے ہونگے تو پھر ہم مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے۔ ایک اور طالبان مجاہد نے نام نہ بتاتے ہوئے کہا کہ ہم نے 1980ءکی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی اور 2001ءمیں ایک اسلامی حکومت کے ماتحت افغانستان کی آزادی کیلئے جنگ لڑی ہم دوبارہ افغانستان میں اپنی حکومت کے قیام کے لئے کوشاں ہیں۔ قطر میں دفتر کھولنے پر خوشی ہے تاہم قطر میں مذاکرات کرنے والے طالبان کو اقتدار کے حصول کے لئے یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ہمیں قابل قبول نہ ہو گا۔ آن لائن کے مطابق امریکہ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں قیدیوں کے تبادلے کے معاملے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ طالبان اس حوالے سے ضرور بات کرینگے۔ قیدیوں کی منتقلی کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کانگریس میں باہمی مشاورت اور امریکی قوانین کی روشنی میں کیا جائیگا۔ طالبان کے قید میں موجود امریکی فوجی سارجنٹ بریگیڈ کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قیدی سارجنٹ کے حوالے سے ہمارے احساسات بہت عیاں ہیں اور ہم اس کی بحفاظت واپسی چاہتے ہیں۔ دوسری جانب رکن کانگریس ڈانا روہر بیکر نے جان کیری کو لکھے گئے خط میں امریکہ کو ملا عمر کے ساتھ مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے دہشتگرد تنظیم کے ساتھ مذاکرات کامیاب نہیں ہونگے کیونکہ یہ مذاکرات افغانستان کے آپس میں برسر پیکار گروہوں کے درمیان ہونے چاہئیں یہ مذاکرات شمالی اتحاد کے ازبک، تاجک اور ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں اور طالبان کے درمیان ہونے چاہئیں۔ جب تک شمالی اتحاد مذاکرات کی میز پر نہیں ہو گا یہ جنگ جاری رہے گی۔ امریکہ کو صرف اس ایشو پر مذاکرات کرنے چاہئیں کہ ملا عمر امریکہ کے سامنے سرنگوں ہو جائے۔ افغانستان میں بے سمتی اور مرکز کی عدم موجودگی کو نظر انداز کرنے اور ناکام پالیسیوں پر تکیہ کرنے کا مقصد امریکی قربانیوں سے روگردانی ہے۔ افغانستان کی ساٹھ فیصد آبادی غیر پشتون ہے وہ مختلف سماجی روایات اور اقدار رکھتے ہیں اور اس حقیقت کو نظر انداز کرنا اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے۔ افغانستان سے نکلنے کے بعد امریکہ کو طالبان کو افغانستان پر دوبارہ قبضے سے روکنے کیلئے تاجک، ازبک، ہزارہ اور فرینڈلی پشتونوں کے تعاون کی ضرورت ہو گی۔ ادھر امریکی وزیر خارجہ جان کیری شام کے معاملے پر بات چیت کے لئے قطر پہنچ رہے ہیں۔ ادھر طالبان کے ساتھ افغانستان کے امن مذاکرات کاروں نے بتایا ہے کہ انہیں قطر میں ہونے والے امن مذاکرات سے کوئی سروکار نہیں طالبان کو امن سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ پھر افغانستان میں حکمرانی کے خواہاں ہیں۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل اینڈرس فوگ راسموسن نے برسلز میں بلغاریہ کے وزیراعظم اوریشار سکی کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے امید ہے کہ مذاکرات جلد شروع ہوں گے۔ ”میرے خیال میں امن بات چیت سے سکیورٹی کامیابیوں کو تقویت ملے گی یہ افغانستان کی سکیورٹی میں مزید معاون ثابت ہونگے“۔ ”میرا نہیں خیال کہ ہم کسی خطرناک صورتحال سے دوچار ہیں“ دینا کے کسی بھی حصے میں کوئی بھی مصالحت آسان طریقہ کار نہیں ہوتا۔