جی ایس ٹی نہ بڑھایا جائے‘ ایران گیس منصوبے کے لئے رقم رکھی جائے: سینٹ ‘ وفاق نے بھی کم از کم تنخواہ 10 ہزار مقرر کر دی
اسلام آباد (عترت جعفری + وقائع نگار + نوائے وقت نیوز + ایجنسیاں) ایوان بالا نے مجلس قائمہ برائے خزانہ، ریونیو، اقتصادی امور، شماریات و منصوبہ بندی کے مالیاتی بل 2013-14ءکے حوالے سے سفارشات منظور کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو بھجوا دیں۔ مجلس قائمہ نے 118 سفارشات پیش کیں جن کی حکومت نے مخالفت نہیں کی جبکہ صوبوں کے بجٹ کے بعد وفاقی حکومت نے مزدوروں کی کم از کم اجرت 8 ہزار روپے سے بڑھا کر 10 ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت نے پنشن پر اضافی ٹیکس واپس لینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ جمعہ کو مجلس قائمہ برائے خزانہ کی چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل نے کمیٹی کی رپورٹ ایوان بالا میں پیش کی۔ کمیٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مہنگائی کے تناسب سے گریڈ ایک سے سولہ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 15 جبکہ افسران کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا جائے، مزدوروں کی کم از کم تنخواہ 10 ہزار، جی ایس ٹی میں ایک فیصد کا اضافہ واپس، دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کو ٹیکس میں دی گئی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے، اسے بحال کیا جائے۔ بھارت سے بجلی درآمد کرنے کی سفارش کو مسترد کر دیا گیا۔ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ حکومت پی ایس ڈی پی سے 80 فیصد جاری ترقیاتی منصوبوں اور 20 فیصد نئی سکیموں کے لئے مختص کئے جائیں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کے لئے رقم مختص کرنے کی بھی تجویز منظور کر لی گئی۔ ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز کی ریلیز ترجیحی بنیادوں پر کی جائے اور مالی سال یکم جولائی سے ہر منصوبے کا پہلا کوارٹر ادا کیا جائے۔ کسانوں کے لئے پروڈیوسر انڈیکس یونٹ 20 فیصد کی جائے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو رعایت دی جائے، حکومت ایف بی آر کو ٹیکس دہندگان کے بنک اکا¶نٹس تک رسائی دینے کا اقدام فوری طور پر واپس لے، اس سے بنکنگ سیکٹر متاثر ہو گا۔ کمپٹی نے سفارش کی ہے کہ حکومت امریکی خفیہ اداروں کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور سیکرٹ معلومات کی چوری کے تدارک کے لئے سائبر سکیورٹی سٹریٹجی کے لئے فنڈز مختص کرے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت میں اس کا قیام عمل میں لایا جائے۔ کمیٹی نے وزارد داخلہ، وزارت دفاع اور اطلاعات و نشریات کے اشتراک سے کا¶نٹر ٹیررزم سٹریٹجی بنانے کی سفارش کی ہے اور ڈرون حملہ میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کو معاوضہ جات کے لئے مخصوص فنڈ کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔ کمیٹی نے کم سے کم آمدن 4 لاکھ پر انکم ٹیکس کا سلیب بڑھا کر اسے 5 لاکھ روپے کر دیا جائے۔ کمیٹی نے سروسز عائد کردہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لیویز کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کمیٹی کی سفارشات پر چیئرمین سینٹ نے منظوری کے بعد قویم اسمبلی کو بھجوا دی ہیں۔ علاوہ ازیں وفقای وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینٹ میں بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے صوبوں کے بجٹ کے بعد وفاقی حکومت کی طرف سے مزدور کی کم از کم اجرت 8 ہزار روپے سے بڑھا کر 10 ہزار کرنے کا اعلان کیا اور کہا ہے کہ حکومت نے حاجیوں پر نہیں ٹور آپریٹرز پر عائد ٹیکس میں معمولی اضافہ کیا ہے، تعلیمی تحقیق کے لئے اساتذہ اور ریسرچرز کو قابل ادائیگی ٹیکس میں ختم کی گئی 75 فیصد ریبیٹ کو بحال کرتے ہوئے اسے 40 فیصد کر دیا ہے، دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کی ٹیکس رعایت کو بحال کرتے ہوئے اس کا دائرہ فاٹا سے بڑھا کر جنوبی پنجاب اور خیبر پی کے کے مخصوص اضلاع تک بڑھا دیا گیا ہے، آئندہ ایک سال میں 5 لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں شامل کریں گے، حکومت حال کئے گئے قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی کے لئے 3 ارب ڈالر قرض حاصل کرے گی، جی ایس ٹی کا نفاذ قانونی تھا، سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام ہے حکومت جی ایس ٹی کو پہلے دن سے نہ نافذ کرتی تو اس مد میں تاجر رقوم اپنی جیب میں ڈالتا، جی ایس ٹی کو آئینی کور حاصل ہے اگر پاپولر طریقے سے چلا گیا تو اس ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق ہو جائے گا، جی ایس ٹی کے نفاذ کا فیصلہ پارلیمنٹ کا ہے اور اسے برقرار رکھنے یہ نہ رکھنے کا فیصلہ بھی پارلیمنٹ ہی کرے گی۔ فنڈز کی بلاک ایلوکیشن متعدد منصوبوں کے پی سی ون کی تکمیل کے لئے رکھی گئی ہے، صوابدیدی فنڈز ختم کر دئیے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سیاست کا ایک وقت ہے بجٹ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا نہیں پوری پارلیمنٹ کا ہے، ارکان ملکی معیشت کو سمجھیں اگر آمدن ہو گی تو حکومت پی ایس ڈی پی کے لئے رقم جاری کر سکے گی۔ ہم نے بھیک مانگ کر ملک نہیں چلانا، گذشتہ حکومت نے ٹیکسوں کی وصولی کے لئے جو اہداف رکھے تھے ان میں سے بھی 324 ارب کی ریکوری نہیں ہو سکی، اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے، اگر جی ایس ٹی میں کیا گیا اضافہ واپس لیا تو پی ایس ڈی پی کے لئے رقم میسر نہیں آئے گی۔ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے سے ارکان کے سوالات و تحفظات کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ مذکورہ پروگرام ختم نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کا سکوپ بڑھا کر حکومت نے انکم سپورٹ پروگرام کے اندر مزید چھ پروگرام شامل کئے ہیں۔ حکومت نے صوبائی حکومت کے بجٹ کا انتظار کرتے ہوئے مزدور کی کم سے کم اجرت کے تعین کا فیصلہ نہیں کیا تھا اب چونکہ صوبوں نے بھی بجٹ پیش کر دئیے ہیں لہٰذا وفاقی حکومت نے مزدور کی کم سے کم اجرت 8 ہزار سے بڑھا کر 10 ہزار روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے اس تاثر کی سختی سے تردید کی کہ موجودہ بجٹ بابو¶ں کا تیار کردہ ہر گز نہیں ہے بلکہ بابو¶ں نے جو بجٹ تیا ر کیا تھا اس میں پی ایس ڈی پی 425 ارب کا مختص کیا گیا تھا جو میں نے مسترد کر دیا تھا۔ جی ایس ٹی کے نفاذ پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اخترام ہے، حکومت نے جی ایس ٹی کا نفاذ 13 جون سے کرنے کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 269 کے تحت کیا ہے جس کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ کا سندھ حکومت کو الٹی میٹم نامناسب اور آئین کے خلاف ہے۔ وزیر داخلہ سندھ حکومت کو ٹارگٹ کلنگ پر قابو پانے کا الٹی میٹم دیتے ہیں، امن و امان صوبائی مسئلہ ہے ایک منتخب حکومت کو الٹی میٹم دینا کوئی مناسب بات نہیں، یہ خطر ناک روش ہے۔ وزیر داخلہ ایوان میں آکر بیان کی وضاحت کریں۔ نقطہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے سینٹ میں قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ کراچی میں امن قائم نہ ہو گا تو پورے ملک کے حالات خراب رہیں گے۔ کراچی میں لگی آگ بجھانے کی کوشش کرنی چاہئے، وزیر داخلہ کے بیان کو سیاق و سباق کی روشنی میں دیکھا جائے۔ کہوںگا کہ وہ بیان کی وضاحت کریں، ایم کیو ایم کی سینیٹر نسرین جلیل نے نکتہ¿ اعتراض پر کہا کہ اپریل سے اب تک ایم کیو ایم کے 100 سے زائد نوجوان ٹارگٹ کلنگ کانشانہ بن چکے ہیں۔ سکیورٹی فورسز ایم کیو ایم کے نوجوانوں کو اٹھا رہی ہیں، 3 نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا، 5 تاحال لاپتہ ہیں۔ لیاری امن کمیٹی کو کھلی چھوٹ حاصل ہے حکومت نوٹس لیکر کراچی میں امن قائم کرے۔ سینیٹر مختار احمد نے کہا کہ آج بھی کالا باغ بنانے کی بازگشت ہے، محترمہ بےنظیر بھٹو نے اس منصوبے کو اسی لئے نظرانداز کیا کہ وہ ایسا منصوبہ شروع نہیں کرنا چاہتی تھیں جس سے قوم تقسیم ہو۔ علاوہ ازیں وزیر خزانہ نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زرعی ٹیکس واپس لینے کا اعلان کر دیا ارو کہا کہ اندرون سندھ، جنوبی پنجاب، کوہستان، ڈی آئی خان، مالاکنڈ ارو فاٹا کو زرعی ٹکیس معاف ہو گا۔ سینیٹر رضا ربانی نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ قومی سلامتی اور خارجہ امور مشیر کو ایوان میں لانے کا وعدہ پورا کریں اور دوحہ میں طالبان امریکہ مذاکرات کے حوالے سے ایوان کو اعتماد میں لیں، یہ اطلاعات بھی ہیں کہ جان کیری پاکستان نہیں آ رہے کیونکہ پروٹوکول کا مسئلہ ہے کہ وزیر خارجہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کس کے ساتھ پریس کانفرنس کریں گے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ جان کیری کے دورہ کے منسوخ ہونے کے حوالے سے بہت سے اہم ایشوز ہیں، ان کا جواب آنا چاہئے۔ حکومت کے پاس پارٹ ٹائم وزیر خارجہ ہے جبکہ وزیر دفاع ہے ہی نہیں، سینیٹر شاہی سید نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ حکومت بتائے کہ ڈرون کب گرائے گی اور بم دھماکے کس تاریخ سے بند ہوں گے، وہ تاریخ بتا دے، حکومت اپنی واضح پالیسی دے۔ چیئرمین سینٹ سید نیئر حسین بخاری نے کہا کہ ٹیکس لگانا پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت سابق دور میں بھرتی ہونے والے سرکاری ملازمین کو فارغ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزیر داخلہ کی طرف سے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ایک ماہ میں نہ رکنے کی صورت میں وفاق کی طرف سے کارروائی کا بیان خطرناک روش ہے۔ راجہ ظفر الحق نے کہا کہ کراچی میں امن قائم نہیں ہو گا تو پورا ملک مشکل میں ہو گا، کراچی میں لگی آگ بجھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ رضا ربانی نے کہا کہ حکومت جان کیری کا دورہ پاکستان ملتوی ہونے کے حوالے سے صورتحال کی وضاحت کرے۔ سینٹ میں اپوزیشن ارکان نے بجٹ پر شدید تنقید کا سلسلہ جمعہ کو بھی جاری رکھا‘ اپوزیشن ارکان نے کہا کہ ملازمین کی موجودہ تنخواہوں میں اضافہ انتہائی کم ہے ےہ بڑھا کر 30 فیصد کیا جائے، پاکستان حالت جنگ میں ہے، کسی صورت دفاع کے بجٹ میں کمی نہیں کرنی چاہئے، ارکان پارلیمنٹ کی سکیورٹی لی جا رہی ہے، بلوچستان میں سکیورٹی کے بغیر ارکان کیسے رہیں گے جبکہ حکومتی ارکان نے کہا ہے کہ صوابدیدی اور سیکرٹ فنڈز کا خاتمہ خوش آئند ہے، سب کو متحد ہو کر قربانی کے جذبے سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کی نسبت سے اضافہ نہیں کیا گیا، حکومت نے ٹیکسز کی بھرمار کر دی ہے۔ سینیٹر سردار علی نے کہا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں، ہماری پالیسی واضح ہونی چاہئے۔ سینیٹر نزہت صادق نے کہا کہ گذشتہ حکومت کے دور میں بجلی کا کوئی منصوبہ شروع نہیں کیا گیا، دیامر بھاشا ڈیم پر جس طرح کام ہونا چاہئے تھا وہ نہیں کیا گیا۔ سینیٹر روبینہ عرفان نے کہا کہ یہ غریبوں کا بجٹ نہیں ہے، یہ بزنس کلاس کا بجٹ ہے۔ سینیٹر سیف اللہ مگسی نے کہا کہ وزیر داخلہ نے ماضی میں جاری کئے گئے اسلحہ لائسنسوں کی تحقیقات کرائی جائے، کہا جا رہا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی سکیورٹی بھی واپس لی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں سکیورٹی کے بغیر ہم کیسے رہیں گے۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ یہ ریکوری بجٹ لگتا ہے اور یقین نہیں آتا کہ یہ بجٹ اسحق ڈار نے پیش کیا ہے۔ سینٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا۔ دریں اثناءسینٹ نے قومی ا سمبلی کو سفارش کی ہے کہ امریکی سی آئی اے‘ این ایس اے کی طرف سے پاکستان کی ”آن لائن“ جاسوسی سے پیدا شدہ خطرے کے تدارک کے لئے سائبر سکیورٹی حکمت عملی بنائی جائے۔ اس کے لئے بجٹ میں رقم دی جائے۔ سٹیٹ بنک کو سوئس بنکوں اور آف شور کمپنیوں میں پاکستانیوں کے بنک کھاتوں تک رسائی دی جائے۔ انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی بنائی جائے‘ پی اے سی میں سینٹ کو بھی نمائندگی دی جائے‘ توانائی کی تام وزارتوں کو یکجا کر کے ایک وزارت بنا دیا جائے۔ سینٹ نے قومی اسمبلی کو سفارش کی ہے کہ اپیلٹ ٹربیونل میں ممبر جوڈیشل کے طور پر گریڈ 20 یا اس سے زائد گریڈ کے افسر کو تعینات کیا جائے۔ فنانس بل میں تجویز ہے کہ گریڈ 17 کا افسر جس کا تجربہ 15 سال ہو ممبر جوڈیشل بن سکتا ہے۔ سینٹ نے رائے دی ہے کہ اس شق کی وجہ سے جونیئر افسروں کی گریڈ 18 یا 19 میں تعیناتی کا راستہ کھل جائے گا۔ سینٹ نے سفارش کی ہے کہ سپیکر اور چیئرمین سینٹ (تنخواہ الا¶نس) ایکٹ 1975ءکی شق 18 کو 2010ءکی پوزیشن پر واپس لایا جائے۔ 2012ءمیں اس سیکشن میں ترمیم کے ذریعے سابق چیئرمین اور سابق سپیکرز کو وفاقی حکومت کو مراعات دینے کا اختیار دیا گیا تھا۔ سینٹ نے سفارش کی ہے کہ ایس ڈی پی میں بلوچستان کا حصہ 15 سے 20 فیصد تک کیا جائے۔ پی ایس ڈی پی کے فنڈز سے چلنے والے منصوبوں کے لئے مالی سال یکم جولائی سے شروع کیا جائے۔ بجٹ کی منظوری کے بعد مجالس قائمہ مختلف وزارتوں اور حکومت کے اخراجات پر نظر رکھیں۔ توانائی سے متعلق تمام وزارتوں کو ایک وزارت بنا دیا جائے۔ امریکہ کی طرف سے سی آئی اے‘ این ایس اے کے ذریعے پاکستان کی آن لائن جاسوسی کے تدارک کے لئے سائبر سکیورٹی سٹرٹیجی بنائی جائے‘ حکمت عملی کی تربیت کے لئے سائبر سکیورٹی ٹاسک فورس بنائی جائے۔ سینٹ نے یہ سفارش بھی کی کہ تمام زرعی پیداوار پر انکم ٹیکس لگایا جائے تاہم چھوٹے کاشتکاروں کو استثنیٰ ہونا چاہئے۔ سینٹ کی سفارشات پر قومی اسمبلی آج غور کرے گی۔