• news

شرح سود میں نصف فیصد کمی ‘ مہنگائی بڑھ سکتی ہے‘ الیکشن کے بعد مثبت تبدیلی آئی: سٹیٹ بنک

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + اے پی اے) نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ شرح سود 0.5 فیصد کم ہو کر 8 سال بعد 9.5 فیصد سے 9 فیصد پر آ گئی ہے۔ سٹیٹ بنک کا کہنا ہے کہ الیکشن کے بعد مثبت تبدیلی آئی ہے۔ مرکزی بنک کے مطابق توانائی بحران اور امن و امان کی صورتحال بدستور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مہنگائی کی رفتار میں حالیہ عرصے میں کمی آئی یہ کمی معاشی سرگرمیوں میں سست روی کی وجہ سے دیکھی جا رہی ہے۔ رواں مالی سال بجٹ خسارے کو کم کرنے میں غیر ملکی معاونت نہ ہونے کے برابر رہی۔ جس کے باعث خسارہ مجموعی پیداوار کے 8.8 فیصد تک پہنچ گیا جس کا سارا بوجھ بنکاری نظام پر پڑ گیا۔ سٹیٹ بنک کے مطابق مہنگائی کے اہداف 8 فیصد سے بڑھ سکتے ہیں چونکہ حکومت بجلی کے نرخوں میں مرحلہ وار اضافے پر غور کر رہی ہے ابھی یہ طے نہیں ہوا یہ اضافہ کب اور کتنا ہوگا۔ چنانچہ خطرہ ہے کہ سال 14ءمیں اوسط گرانی اس سال کے 8 فیصد کے اعلان کردہ اہداف سے تجاوز کر سکتی ہے تاہم معیشت میں مجموعی طلب معتدل رہنے کی توقع ہے جو گرانی کو کسی قدر کم کر سکتی ہے۔ انتخابات کے بعد سیاسی فضا واضح ہونے سے احساسات میں مثبت تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ سٹیٹ بنک کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ قابو میں رہنے کی توقع ہے۔ حقیقی چیلنج بیرون ممالک سے آنے والی رقوم میں کمی ہے۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی دباﺅ کم نہیں ہوا۔ نومبر 2012ءسے مئی 2013ءتک افراط زر کی شرح میں ایک اعشاریہ آٹھ فیصد کی کمی ہو چکی ہے جو اکتوبر 2009ءکے بعد کی کم ترین سطح ہے۔ جولائی 2011ءمیں افراط زر کی شرح بارہ اعشاریہ چار تین فیصد تھی جو جون 2013ءمیں پانچ اعشاریہ ایک فیصد پر آگئی جبکہ رواں مالی سال کے اختتام پر اوسط افراط زر ہدف سے بھی کم سات اعشاریہ پانچ فیصد رہے گی۔ سٹیٹ بنک کے مطابق مہنگائی میں اضافے کی شرح میں ہونے والی مسلسل کمی جی ڈی پی کی ہدف سے کم شرح نمو اور نجی شعبے کے کم قرضوں کو اہمیت دیتے ہوئے شرح سود میں کمی کی گئی۔ جولائی دوہزار گیارہ میں شرح سود چودہ فیصد سے کم کر کے اکتوبر دو ہزار گیارہ تک بارہ فیصد کردی گئی جو 50 بیسیز پوائنٹس کی مزید کمی کے بعد اب 9 فیصدکی سطح پر آ گئی۔ سٹیٹ بنک کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کرنٹ اکاو¿نٹ خسارہ قابو میں رہنے کی توقع ہے۔ حکومت کے ٹیکسوں میں ردوبدل اور بجلی کے نرخوں میں اضافے سے آئندہ مالی سال مہنگائی کی شرح ہدف 8 فیصد سے زائد ہو سکتی ہے۔ زری پالیسی کے فیصلے کے مطابق سٹیٹ بنک نے توازن ادائیگی کی صورتحال کو درپیش خطرات کے مقابلے میں گرتی ہوئی گرانی اور نجی شعبے کے پست قرضوں کو زیادہ اہمیت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ زری پالیسی کے فیصلے کے مطابق مالی سال 2013ءکے انتخابات کے بعد سیاسی فضا واضح ہونے کی وجہ سے احساسات میں مثبت تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کی دو مثالیں حکومتی تمسکات کی نیلامی میں بنکوں کا رویہ اور سٹاک مارکیٹ کا ردعمل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ سٹیٹ بنک کی جانب سے کئے گئے سرویز میں صارفین کے اعتماد، متوقع معاشی حالات اور گرانی کی توقعات میں نمایاں بہتری آئی ہے تاہم بیرون ملک سے رقوم کی آمد کی عدم موجودگی اور بنکاری نظام سے بلند مالیاتی قرضے سخت معاشی چیلنج بنے ہوئے ہیں خصوصاً زری پالیسی کے لئے۔ اسی طرح بجلی کی قلت اور امن و امان کے حالات نمو کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ گذشتہ سال کے دوران گرانی میں تقریباً مسلسل اور وسیع البنیاد کمی کا گرانی، جو زری پالیسی کے فیصلوں میں اہم متغیر ہے، کے منظر نامے پر سازگار اثر پڑا ہے۔ اگر معیشت کو ابھرتے ہوئے مثبت احساسات سے فائدہ اٹھانا ہے اور ملکی و بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیب دینی ہے تو ایک اصلاحات پر مبنی اور معتبر وسط مدتی مالیاتی منصوبے کا نفاذ لازمی ہے چنانچہ سٹیٹ بنک کے مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز نے توازن ادائیگی کی صورتحال کو درپیش خطرات کے مقابلے میں گرتی ہوئی گرانی اور نجی شعبے کے پست قرضوں کو زیادہ اہمیت دی ہے اور پالیسی ریٹ 24 جون 2013ءسے 50 بیسس پوائنٹس کم کرکے 9 فیصد کیا جا رہا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن