• news

نو مور

حافظ محمد عمران
فاسٹ باﺅلر شبیر احمد نے چیمپئنز ٹرافی میں قومی ٹیم کی ناکامی پر تحقیقات۔ تیز گیند باز محمد خلیل نے نئے چہروں کو سامنے لانے اور 90ءکی دہائی میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرنیوالے ٹیسٹ فاسٹ باﺅلر عامر نذیر نے کوچ ڈیوواٹمور کی تبدیلی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ تینوںہی بڑے بھولے بادشاہ ہیں۔ جہاں تک تحقیقات کی بات ہے تو جنہوں نے یہ کام کرنا ہے وہ خود بیچارے پھنسے پڑے ہیں اور جہاں تک تعلق نئے چہروں کا ہے تو بورڈ میں موجود پرانے چہرے بیٹھے ہیں وہ اپنے جیسے ”ہمنوا “ہی پرانے پسند کرتے ہیں۔ لگے ہاتھ شعیب اختر کا ذکر بھی کر لیں۔ ملکی کرکٹ کو سدھارنے کے لئے وہ کسی ”بندے دے پتر“ کی تلاش کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ایک مشورہ ہمارے کوچ ”ڈومور“ نے بھی دیا ہے وہ ہے قابل آل راﺅنڈر کو ٹیم میں شامل کرنے کا۔ ڈومور سے کوئی پوچھے وہ پہلے کہاں سوئے ہوئے تھے۔ ویسے تو اب انہیں بھی نو مور کہنے کا وقت ہے۔ کیونکہ ان کے ہونے اور نہ ہونے سے ٹیم کو خاص فرق نہیں پڑا۔ اس سے تو بہتر ”چاچا کرکٹ “کو قومی ٹیم کا کوچ بنا دیں تو ہوسکتا ہے وہ بہتر کام کرلیں اور زرمبادلہ کی بچت بھی ہوجائے۔ پاکستان ایک زرخیز خطہ ہے جو قدرتی انعامات سے مالا مال ہے۔ افسوس! صد افسوس! ہمیں قدرت کے اس انعام پر یقین ہی نہیں رہا۔ ظاہری پیکنگ سے متاثر ہو کر دوائیوں کے ذریعے موٹے کیے گئے پھل دوسرے ممالک سے منگوا لیتے ہیں لیکن کھاتے ہیں تو اُن کی اصلیت ظاہر ہوتی ہے یعنی بے ذائقہ یا بدذائقہ۔ یہی حال ہم نے کرکٹ کے ساتھ کیا ہے۔ سرخ رنگ اور پھولے ہوئے اجسام والے کوچ منگوائے اور نہ صرف اپنے منہ کا ذائقہ خراب کیا بلکہ اپنی کرکٹ کا خانہ خراب کر لیا۔ حالانکہ ملک عزیز میں بہت سے ایسے سینئر نامور کھلاڑی تھے اور ہیں جن کو دنیا مانتی ہے، مگر ہمیں تو وہ کوچ چاہئیں جنہیں ادائیگی ڈالروں میں ہو اور ترقی اُلٹے پاﺅں۔ ائرکنڈیشنر اگلی جانب سے ٹھنڈی ہوا دیتے ہیں اور پچھلی جانب سے گرم، ہم اُلٹے ائرکنڈیشنر لگا کر ٹھنڈی ہوا کی امید لگا لیتے ہیں۔ یہی حال کوچنگ میں ہمارا ہے۔ اگر غیر ملکی ہی کامیابی کی ضمانت ہیں تو پھر کرکٹ بورڈ ہی کسی ملک کو ٹھیکے پر دے دیں تاکہ معاملات تو بہتر ہوں۔
پاکستان کا نام روشن کرنے والے پرانے کھلاڑیوں میں حنیف محمد، انتخاب عالم، ظہیر عباس، ماجد خان، صادق محمد، جاوید میانداد، وسیم باری، آصف اقبال اور دیگر بہت سے ایسے نام جن کا لوہا دنیا مانتی ہے، شامل ہیں۔ مگر ہماری خواہش ہے کہ اخباروں میں ”کرکٹ برائے فروخت“ کا اشتہار لگائیں اسے بین الاقوامی میڈیا میں بھی مشتہر کیاجائے اور غیرملکیوں کو اپنی کھیلوں کی دنیا کا حاکم تسلیم کر لیں۔ ہمارے کھلاڑی بھی ایسے گھوڑے ہیں جو غیرملکی چابک سے چلتے ہیں۔ سازشوں میں ان کا ذہن اتنا چلتا ہے کہ اُنہیں شطرنج کی بساط پر بٹھانا چاہئے مگر عوام نے اُنہیں ہمیشہ کندھوں پر بٹھایا ہے۔
حالیہ چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان ٹیم کی شرم ناک کارکردگی پر استعفوں کی توقع تھی لیکن دیکھنے کو ملی بے شرمی اور ڈھٹائی۔ کوچ کی جانب سے عندیہ ملا کہ ہماری نظر 2015ءکے ورلڈ کپ پر ہے۔ عقل کے اندھے یہ بتائیں کہ وہ انگلینڈ کیا کرنے گئے تھے؟ کیا انہیں چیمپئنز ٹرافی کی بجائے ولیمے پر بلایا گیا تھا اور کیا چیمپئنز ٹرافی ہم نے 1840ءمیں کھیلی ہے کہ ابھی 2015ءبہت دور ہے؟؟
ایک بندر کے ہاتھ انگریزی کا ایک صفحہ لگ گیا۔ اُس نے منادی کرا دی کہ مجھے جنگل کا بادشاہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ انگریزی بھلا کسے سمجھ آتی تھی، سب نے اُسے تسلیم کر لیا (جیسے ہم تسلیم کر لیتے ہیں)۔ اسی اثنا میں بندر صاحب ایک درخت پر آرام فرما تھے کہ ایک ہرن نے شکایت کی کہ اُس کے بچے کو شیر کھا گیا ہے، مہاراج کچھ کریں۔ بادشاہ سلامت نے فرمایا تم جاﺅ میں کچھ کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد ہرن دوبارہ پیش ہوا اور فریاد کی کہ میرے دوسرے بچے کو بھی شیر کھا گیا، اب تو کچھ کریں۔ بندر مہاراج نے ایک درخت سے دوسرے پر اور دوسرے سے تیسرے پر چھلانگیں مارنا شروع کیں۔ تھک ہار کر بولا ہرن بہن میں نے تو بہت کوشش کی لیکن کچھ نہیں بنا، اب قدرت کے فیصلے کو قبول کر لو۔ یہی حال ہمارے بورڈ افسران اور ٹیم آفیشلز کا ہے جو عوام کو سبز باغ دکھاتے رہتے ہیں۔ کبھی باصلاحیت کھلاڑیوں کی گردان کرتے ہیں تو کبھی ملکی کرکٹ کو بلندیوں پر لے جانے کی باتیں، لیکن جب میدان سجتا ہے تو کاغذی شیر ثابت ہوتے ہیں۔ عوام آخر کب تک ایسی قلابازیاں دیکھتے اور قدرت کے فیصلے یوں ہی بے بسی سے قبول کرتے رہیں گے یا کبھی ہمارے کرکٹروں کی کوششیں بھی نظر آئیں گی۔ اشتہارات میں بوتلوں کے شوقین ہیرو جو لندن میں بھیس بدل کر بوتلیں ڈھونڈتے رہے اُن کو مشورہ ہے کہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام تلاش کریں، اپنی عزت و توقیر کا خیال کریں، اپنے سینئرز کی ویڈیوز دیکھیں اُنہیں حقارت سے نہ دیکھیں۔
کرکٹ ٹیم سیاسی پارٹی نہیں جس میں مختلف گروپ ہوتے ہیں۔ یہ کھیل ہے اسے کھیل ہی رہنے دیں۔ اپنے سینئرز، نئے ٹیلنٹ اور اخلاص پر یقین رکھیں ابھی کچھ نہیں بگڑا۔ اگر واقعی نظر 2015ءکے ورلڈ کپ پر ہے تو موجودہ کھلاڑیوں کی عمروں کا حقیقی جائزہ لیں اور دیکھیں کہ اُس وقت تک کتنے کھلاڑی چل پائیں گے؟ ویسے بورڈ کے ”بابوں“ اور ہمارے شہزادوں میں سے بہت سوں کو تو اب ”نومور“ کہنے کا وقت آ چکا ہے!
”نومور“ سے یاد آیا کہ صحرائے تھر میں ”مور“ گزشتہ سال کی طرح پھر سے مرنے لگے ہیں سر پر قلغی تاج اور خوشنما پروں والے اس پرندے کی بیماری پر قابو نہیں پایاجاسکا یہی حال ہمارے اس کھیل کا ہے جو بین الاقوامی سطح پر ہمارا خوشکن تاثر ابھارتا ہے اور ہماری پہچان ہے کہ ہم دہشت گردنہیں بلکہ امن کے پیامبر ہیں اس کھیل کو جو ہم نے اناڑیوں کے ذمہ ڈال دیا ہے جو ابھی تک اس کا علاج نہیں کرسکیں بقول شاعر ....ع
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گر ہے کہ نہیں

ای پیپر-دی نیشن