کراچی سے مکہ مکرمہ تک گلوبل پیس واک
شاید بلکہ یقیناً یہ دنیا بھر میں سب سے لمبی واک ہے۔ کراچی سے مکہ مکرمہ تک۔ پیدل چلنا ہماری روایت ہے مگر ہم کسی دوسری حکایت میں پڑ گئے ہیں۔ کثرت رائے ایک انوکھا جوان ہے۔ وہ اپنی زندگی کو کچھ اور زندگی بنانا چاہتا ہے۔ پہلے قومی سطح پر اس نے ایک طویل واک کی تھی۔ پشاور سے کراچی تک وہ مسلسل چلتا رہا۔ لوگ اسے حیرت سے دیکھتے تھے۔ اس طرح دیوانہ وار پیدل چلنے سے کیا ہو گا۔ اسے یقین ہے کہ کچھ تو ہو گا۔ لوگ سوچیں گے ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ یہ کون ہے کیا کر رہا ہے کیوں کر رہا ہے۔ مجھے کہنے لگا کہ تم کالم کیوں لکھتے ہو۔ میں لاجواب ہو گیا تو وہ خود بولنے لگا کہ تم چاہتے ہو کہ یہ زندگی اچھی زندگی ہو جائے۔ سچ اور قانون کی طاقت ہر طرف نافذ ہو۔ کوئی دکھ میں نہ ہو۔ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے مگر میں کالم نہیں لکھ سکتا۔ میں سوچتا رہا کہ کیا کروں تو پھر میں نے سوچا کہ میں پیدل تو چل سکتا ہوں۔ تمہارے پاس قلم ہے تو میرے پاس قدم تو ہیں میں نے چلنا شروع کر دیا۔ مجھے لگا کہ ہر آدمی میرے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ ہم جہاں پہنچیں گے وہ ہماری منزل ہو گی۔ ہماری منزل ایک ہے۔ ہماری منزل ایک خوبصورت زندگی ہے۔ دنیا دکھوں کا گھر ہے تو اسے سکھوں کا گھر بھی بنایا جا سکتا ہے۔ میرے پاس ایسا کچھ نہیں ہے کہ میں اپنے ارادوں، آرزوﺅں کو پورا کر سکوں۔ پھر میں نے یہ ٹھان لیا کہ میں چلتا رہوں گا۔ کبھی تو منزل آئے گی۔
ڈاکٹر لوگوں کو واک کرنے کے لئے کہتے رہتے ہیں۔ آدمی بے مقصد چلتے رہتے ہیں۔ وہ کسی منزل پر نہیں پہنچتے۔ یہ کیا واک ہوئی۔ مگر منزل تو چلنے والوں کے دل میں ہوتی ہے۔ کثرت رائے اپنے دل کو لوگوں کے دلوں سے جوڑ دینا چاہتا ہے۔ اس نے پشاور سے کراچی تک واک کی تھی اس کا بڑا چرچا ہوا۔ اس نے اپنے مقاصد لوگوں کے سامنے رکھے اپنے ملک کو شاندار بنانے کے لئے ہر کوئی جو کچھ کر سکتا ہے کر گزرے۔ جب ہر آدمی کثرت رائے کا ہمسفر بن جائے گا تو پھر وہ منزل ضرور آ جائے گی جسے دیکھنے کے لئے ہم سب منتظر ہیں۔
اب وہ کراچی سے مکہ مکرمہ تک جا رہا ہے۔ کراچی دہشت گردی کا شکار ہے اور مکہ امن کا شہر ہے سمبل آف پیس۔ ان دونوں شہروں میں کوئی رشتہ قائم کرنے کی آرزو کثرت رائے کو کھینچے لئے جا رہی ہے۔ اس کٹھن سفر کو اس نے گلوبل پیس واک کا نام دیا ہے کہ عالم انسانیت امن کا ٹھکانہ بنے۔ عالم اسلام کی مشکلات میں کمی ہو۔ پاکستان خوشحالی اور امن کا وطن بن جائے۔
سنتے تھے کہ پہلے لوگ پیدل حج کے لئے جاتے تھے۔ کثرت صرف حج کرنے نہیں جا رہا ہے حج سے زیادہ کوئی اور نیکی ہے جو اس کے اندر دھوم مچاتی ہے۔ کہا گیا کہ ”دل بدست آرزوئے حج اکبر است“ دلوں کو جیت لو کہ یہ حج اکبر ہے۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ کثرت رائے حج اکبر کی خواہش دل میں رکھتا ہے۔ اس کے تکلیف اٹھانے سے لوگوں کی تکلیفیں کم ہوں گی۔
یہ 6387 کلومیٹر کا طویل سفر ہے جو 117 دنوں میں مکمل ہو گا۔ یہ ایک ریکارڈ واک ہے۔ اس کے بعد کثرت رائے کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آئے گا اور دنیا والوں کو پتہ چلے گا کہ یہ واک کیوں کی گئی ہے۔ کثرت رائے کا مقصد واضح ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ طاقت کا توازن قائم ہو۔ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو۔ ہر قوم اور ہر انسان کو بنیادی حقوق ملنے چاہئیں۔ ہر ملک خوشحال ہو اور خود مختار ہو۔ عالم اسلام متحد ہو۔ پاکستان دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے ایک مثالی ملک ہو۔ کثرت رائے جب بھی مجھ سے ملا تو اس نے یہی باتیں کیں۔ کبھی کوئی ذاتی بات نہیں کی۔ اپنی کسی ضرورت اور تکلیف کا اظہار اس نے کبھی نہ کیا۔ آدمی تھوڑی دیر چلے تو تھک جاتا ہے۔ وہ ایک انتھک آدمی ہے۔ اس نے تھکن اور لگن کو رلا ملا دیا ہے۔ چلچلاتی دھوپ اور گرمی کا زور اس کے ارادوں کو نہیں توڑ سکا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اسے موسم کی شدت سے آگاہ کیا۔ اس نے یقین بھری نگاہوں سے مجھے دیکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ آپ تو میرے ارادوں کے ساتھی ہو۔ دعا فرمائیں میرا خدا میرا مددگار ہو۔ وہ کراچی سے بلوچستان پہنچ چکا ہے۔ یہاں سے ایران میں داخل ہو گا۔ عراق اردن سے ہوتا ہوا سعودی عرب پہنچے گا اور پھر حج سے پہلے مکہ مکرمہ میں قدم رکھے گا۔ حج کرے گا۔ میرے خیال میں یہ حج اکبر ہو گا۔ کثرت رائے نے حکومت پاکستان، سعودی عرب، عراق، اردن اور ایران کا شکریہ ادا کیا ہے جن کے تعاون سے یہ ”واک“ ممکن ہو سکی۔ اس کی ملاقات وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک سے ہوئی ہے۔ وہ ان کا بہت معترف ہوا ہے۔ انہوں نے کھل کر پاکستان اور بلوچستان کے حالات پر بات کی اور اس خطے کو امن کا گہوارہ بنانے کا عزم ظاہر کیا۔ اس نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کی تعریف کی کہ ایک پڑھے لکھے محبت کرنے والے غیر سردار ایک عام آدمی کو پہلی بار وزیر اعلیٰ بلوچستان بننے کا موقع ملا ہے۔ اس طرح بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ کشمیر کوئٹہ عثمان گل نے بھی کثرت رائے کے ساتھ بہت دوستانہ برتاﺅ کیا۔ اس کے ساتھ اس نے ڈی سی او خضدار ایاز مندوخیل کو بھی یاد کیا۔ وہ ہر کسی کے لئے شکرگزار ہے جو اس اچھے مقصد کے لئے اس کے ساتھ تعاون اور محبت کر رہا ہے۔ کراچی سے ایدھی صاحب نے ایک ایمبولنس بھی ساتھ روانہ کی ہے۔ اس نے خاص طور پر زاہد نصراللہ کے لئے ممنونیت کا اظہار کیا جو فارن افیئرز کی وزارت میں مڈل ایسٹ کے لئے ڈائریکٹر جنرل ہیں اس کا دوست نعیم چودھری لاہور میں ہے مگر لگتا ہے کہ اس کا ہمسفر ہے۔ اس سفر میں کوارڈی نیٹر کے طور پر سید ذوالفقار حافظ محمد شہزاد نعیم عباس چودھری اور روٹ منیجر کی حیثیت میں ڈاکٹر خالد محمود شریک ہیں۔ میں نے اسے برادرم اوریا مقبول جان کا فون نمبر دیا کہ بلوچستان کے لئے اس سے زیادہ باخبر آدمی کوئی نہیں۔ وہ اہل خیر میں سے بھی ہے۔
کبھی پیدل چلنے کو آوارہ گردی کہا جاتا تھا اب دہشت گردی کے خوف نے آوارہ گردی کا لطف بھی چھین لیا ہے کثرت رائے ہر طرح کے خوف سے نکل کر پیدل چلتا چلا جا رہا ہے۔ اس طرح کے جوان کو عالمی آوارہ گرد کا لقب دینا چاہئے۔ میرے بابا محمود یحیٰی خان ساری دنیا میں پھرتے ہیں۔ کہیں بھی کوئی قابل ذکرقبر ہو وہاں ضرور پہنچتے ہیں۔ وہ پرکشش ہیں کہ پراسرار ہیں۔ میں انہیں پیار سے رومانی آوارہ گرد کہتا ہوں۔ بہت پیارے آرٹسٹ صوفی مزاج برادرم نورالحسن ان کے بہت عقیدت مند ہیں۔ میں کثرت رائے کے آرزو بھرے جذبے کو سلام کرتا ہوں اور بارگاہ نبوی میں اسے سلام نیاز پیش کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔