طالبان امریکہ مذاکرات آغاز سے قبل مشکلات کا شکار
طالبان امریکہ مذاکرات آغاز سے قبل مشکلات کا شکار
امریکہ سے جنگ جاری رہے گی، مطالبات پورے ہونگے تو مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے : طالبان، افغانستان کو آزاد کرا کے ملک کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں : مُلا احسان ۔ قیدیوں پر بات چیت خارج از امکان نہیں : امریکی ترجمان۔ مذاکرات شمالی اتحاد اور طالبان میں ہونے چاہئیں : امریکی رکن کانگریس ڈانا بیکر کا جان کیری کو خط !
دوہا قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات شروع ہونے سے قبل ہی انتشار کا شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ طالبان کی طرف سے مذاکرات پر آمادگی اور قطر میں دفتر کے قیام کے بعد امریکہ سے جنگ جاری رکھنے اور مطالبات تسلیم کرنے کے بعد مذاکرات میں شمولیت کے اعلان نے عجیب مخمصے کی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ افغان حکومت کے امن مذاکرات میں حصہ لینے والے وفد کے ارکان نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہیں مذاکرات سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ طالبان کو امن سے کوئی دلچسپی نہیں وہ صرف افغانستان پر حکمرانی کے خواہاں ہیں۔ امریکی سینٹر ڈانا بیکر نے وزیر خارجہ جان کیری کو لکھے خط میں زور دیا ہے کہ امن مذاکرات میں پشتون طالبان کے ساتھ ساتھ ان کے مخالف تاجک، ازبک، ہزارہ، شیعہ کمیونٹی اور طاقت کے ایک اہم مرکزی فریق شمالی اتحاد جیسے مو¿ثر مسلح دھڑے کی شمولیت بھی ہونا چاہئے کیونکہ طالبان کے سارے دور حکومت میں شمالی اتحاد اور طالبان حکومت کے درمیان جنگ ہوتی رہی ہے۔ دریں اثناءپاکستان کے وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا ہے کہ امریکہ طالبان مذاکرات سے علاقہ میں امن و استحکام پیدا ہو گا۔ امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے ان سے ملاقات میں افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کی کوششوں اور امریکہ سے بہتر تعلقات کے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اور پاکستان علاقے میں امن کیلئے مل کر کام کرینگے۔ افغانستان میں امن و استحکام کیلئے مذاکرات پاکستان کی مشاورت اور شمولیت سے ہی ممکن ہو سکے ہیں اور انہیں کامیاب کرنے میں بھی پاکستان کا نہایت اہم کردار ہو گا۔ عالمی برادری کی توجہ اب اس طرف مبذول ہے کہ مذاکرات کے بعد خطے کا مستقبل کیا صورت اختیار کرتا ہے۔ امید ہے کہ پاکستان تمام فریقین کو ایک میز پر اکٹھے کرنے کی بجائے خود بھی اس عمل میں شامل رہے گا۔