جاوید ہاشمی کے خلاف فرد جرم
باغی جاوید ہاشمی کا یہ جرم ابھی تک معاف نہیں کیا گیا کہ انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران نواز شریف کو اپنا لیڈر کیوں کہا۔ جاوید ہاشمی نے جب اپنے حلقہ انتخاب کے ووٹرز اور سپورٹرز کی ناراضگی کے اظہار کے بعد ”نواز شریف اب بھی میرا لیڈر ہے“ کے الفاظ واپس لے لئے تو اس پر بھی اعتراض کیا گیا اور میڈیا کی طرف سے جاوید ہاشمی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بدھ کی شب ایک ٹی وی چینل میں پورے ایک گھنٹے کا پروگرام پیش کیا گیا جس میں جاوید ہاشمی مہمان تھے اور میزبان کی جانب سے سوالات کرنے کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی سخت گیر تھانیدار ملزم سے پولیس کے روایتی انداز میں تفتیش کر رہا ہو۔
میرے نزدیک جاوید ہاشمی نے قومی اسمبلی میں یہ کہہ کر کہ نواز شریف آج بھی میرا لیڈر ہے کوئی جرم نہیں کیا تھا بلکہ سیاست میں وضع داری کی یہ ایک خوبصورت مثال تھی کہ جاوید ہاشمی نے ذاتیات سے بلند ہو کر نواز شریف کو اپنا لیڈر کہہ دیا۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں لیا جا سکتا تھا کہ چند لمحات پہلے نواز شریف کے مقابلے میں وزیراعظم کے منصب کے لئے الیکشن لڑنے والے جاوید ہاشمی نے حقیقت میں بھی نواز شریف کی لیڈر شپ کو اپنے لئے قبول کر لیا تھا۔ سیاسی وضع داری میں کہے ہوئے الفاظ محض علامتی ہوتے ہیں۔ یہ ایک سلیقے سے اور نرالے ڈھنگ سے اپنے مخالف سیاسی لیڈر کو خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش تھی۔ بہرحال جب جاوید ہاشمی کا اپنا حلقہ انتخاب ان پر نواز شریف کو اپنا لیڈر کہنے کے الفاظ پر معترض ہوا تو جمہوریت کو اپنا دوسرا مذہب قرار دینے والے جاوید ہاشمی نے جمہور کے فیصلے کے سامنے اپنا سرتسلیم خم کر دیا اور انہوں نے نواز شریف کو اپنا لیڈر کہنے کے الفاظ واپس لے لئے۔ میری سمجھ سے یہ بات بالا تر ہے کہ اگر جاوید ہاشمی نے اپنے حلقہ انتخاب کے عوام کی رائے کا احترام کیا ہے تو اس پر تنقید بلکہ جاوید ہاشمی کی تذلیل اور تضحیک کا جواز کیا ہے۔
جب ہمارے ملک میں آئین، قانون، پارلیمینٹ، عدلیہ، بنیادی انسانی حقوق، سیاست اور سیاسی جماعتیں سب کچھ فوجی جرنیلوں کے بھاری بوٹوں کی زد میں تھا اس وقت بغاوت کا پرچم جاوید ہاشمی کے ہاتھ میں تھا اور وہ آئین کی بالا دستی اور جمہوری حقوق کی بحالی کے لئے جدوجہد کے جرم میں صرف جنرل پرویز مشرف کے دور میں دس مرتبہ گرفتار کیا گیا اور اپنی آخری گرفتاری کے بعد جاوید ہاشمی نے چار سال تک جیل میں اپنی بے گناہی کی سزا بھگتی لیکن جنرل پرویز مشرف کے ظلم کے سارے ضابطے باغی جاوید ہاشمی کو ان کی باغیانہ روش ترک کرنے پر مجبور نہ کر سکے۔ نواز شریف نے بجا طور پر اپنی ایک تحریر میں جاوید ہاشمی کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا ”جاوید ہاشمی کا نام جمہوری جدوجہد کے قافلہ سالاروں میں سرفہرست ہے“ یہاں نواز شریف نے جاوید ہاشمی کو اپنا قافلہ، سالار اور امیرکارواں قرار دیا۔
جاوید ہاشمی نے اگر تحریک انصاف کے مرکزی صدر ہوتے ہوئے اپنی ایک تقریر میں ”نواز شریف آج بھی میرا لیڈر ہے“ کہنے کی ”غلطی“ کر لی تھی تو اسے اپنی مرضی کے معنی پہنا کر جاوید ہاشمی پر تنقید کی بوچھاڑ کرنے والوں سے میرا سوال ہے کہ کیا اس ایک جملے سے یا یہ جملہ واپس لے لینے سے جاوید ہاشمی کی پوری سیاسی زندگی کی قربانیوں اور ضمیر کی سیاست کی نفی ہو گئی ہے۔ حیرت ہے کہ میرے ملک کے صحافی اور دانشور کشمیریوں کے خون سے غداری کرنے والے، ملک کا آئین توڑنے والے فوجی حکمرانوں، اپنے ہی ملک کے عوام پر ڈرون حملوں کے لئے پاکستان کے فوجی اڈے امریکہ کے حوالے کرنے والی حکومتوں، پاکستان کے دریاﺅں کا سودا کرنے والے قوم کے غداروں حتیٰ کہ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے والے جنرل نیازی تک کو بھی معاف کر دیتے ہیں لیکن جاوید ہاشمی کا یہ جملہ کہ نواز شریف میرا آج بھی لیڈر ہے اتنا بڑا جرم بنا دیا گیا ہے کہ باغی جاوید ہاشمی کے خلاف کالم پر کالم لکھے گئے اور ٹی وی چینلوں پر کئی پروگرامز میں یہ مسئلہ زیر بحث لایا گیا۔اگر میرے کالم نگار ساتھیوں نے جاوید ہاشمی پر الزامات عائد کرنے ہیں تو میں انہیں باغی جاوید ہاشمی کے خلاف اس کے جرائم کی مکمل فہرست مہیا کر سکتا ہوں۔
جاوید ہاشمی کا اصل جرم یہ ہے کہ اس نے ملک میں عوام کی بالا دستی پر مبنی جمہوری نظام لانے کے لئے طویل جدوجہد کی ۔ اس کے خلاف ملک بھر کے تمام سیاستدانوں سے بڑھ کر اتنی تعداد میں مقدمات قائم کئے گئے کہ شاید اسے عالمی ریکارڈ کے طورپر بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ کارگل کے مسئلہ پر کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ بھی جاوید ہاشمی کا بہت بڑا جرم تھا۔ ایک اور سنگین جرم اس کا یہ تھا کہ اس نے ہمیشہ 1973ءکے آئین کی بالا دستی بات کی، اس نے جنرل پرویز مشرف کے ایل ایف او کو آئین کا حصہ ماننے سے انکار کیا اور جاوید ہاشمی نے فوجی جرنیلوں کے اس عمل کو ہمیشہ اپنی تندوتیز تنقید کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے محض اپنے اقتدار کی خاطر دفاع پاکستان کے مقدس ادارے فوج کو بھی متنا زعہ بنا دیا۔ جاوید ہاشمی کا یہ بھی جرم ہے کہ وہ امر یکہ کی دوستی کو امریکہ کی غلامی قرار دیتے ہیں اور وہ پاکستان کے لئے آزاد اور غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی کے علمبردار ہیں۔ جاوید ہاشمی کا ایک یہ بھی جرم ہے کہ وہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے سائنسدانوں کی تذلیل اور بالخصوص محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ کئے جانے والے توہین آمیز سلوک کو جنرل پرویز مشرف کا ایک ناقابل معافی جرم سمجھتے ہیں۔ میں نے جاوید ہاشمی کے خلاف ایک مختصر فرد جرم پیش کر دی ہے۔ میرا خیال ہے کہ جاوید ہاشمی بھی میرے ان الزامات کو مسترد نہیں کر سکتے۔
اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو جاوید ہاشمی اپنی طویل ترین سیاسی جدوجہد، تجربے، بصیرت اور بے مثال قربانیوں کے باعث عمران خان کا بھی لیڈر ہے۔ عمران خان اور جاوید ہاشمی میں وہی فرق ہے جو ملا کی اذان اور مجاہد کی اذان میں ہوتا ہے۔ کہاں ریفرنڈم میں فوجی آمر پرویز مشرف کی حمایت کرنے والا عمران خان اور کہاں جنرل پرویز مشرف کے سیاہ ترین دور حکومت میں تقریباً ساڑھے پانچ سال تک جیل میں اپنی بہادری کی داستان تحریر کرنے والا جاوید ہاشمی۔ نواز شریف نے سچ ہی کہا تھا کہ جاوید ہاشمی پر نواز شریف کو فخر ہے بلکہ پورے پاکستان کو جاوید ہاشمی پر فخر ہے۔