• news

کراچی،اب گورنر راج ہی حل ہے؟

 سندھ پر پانچ سال تک عوامی حمایت رکھنے والی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی مشترکہ حکمرانی رہی مگر یہ دونوں جماعتیں کراچی کو پُر امن شہر بنانے میں ناکام رہیں حالانکہ مرکز میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور یہ پارٹی سندھ کو ہی اپنی سیاسی قوت کا سرچشمہ قرار دیتی ہے جسے سندھ کارڈ کا نام دیا گیا ہے اس شہر کی گزشتہ پانچ سالہ تاریخ کا جائزہ لیاجائے تو یہ دونوں جماعتیں اقتدار میں رہنے کیلئے اور اقتدار کو بچانے کیلئے ایک دوسرے کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتی رہی ہیں مفادات کے اس کھیل میں جرائم پیشہ افراد نے خوب فائدہ اٹھایا۔
اسلام آباد میں اعلیٰ سطح اجلاس میںجو ملک میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی صدارت میں ہوا وزارت داخلہ سے منسلک تمام اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی اجلاس میں سندھ بالخصوص کراچی میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا سندھ میں ٹارگٹ کلنگ کے خاتمہ کیلئے صوبائی حکومت کو ایک ماہ کی مہلت دی تاہم اس دوران سندھ حکومت کو انٹیلی جنس شیئرنگ سمیت درکار بھرپور تعاون فراہم کرنے کے ساتھ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ایک ماہ میں سندھ حکومت کی جانب سے فعال کارکردگی نہ دکھائے جانے کی صورت میں وفاقی حکومت خود اقدامات کریگی۔ وزیر داخلہ نثار چودھری ان سطور کی اشاعت تک وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سے ملاقات کرینگے۔ دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے گاڑیوں میں سکیورٹی چپس استعمال کی جائیں گی۔ گزشتہ پانچ سال کا جائزہ لیا جائے تو سندھ ،کراچی میں امن و امان کے حوالے سے بہت سے اجلاس ہوتے رہے جن میں سے کئی اجلاس کی صدارت صدر آصف زرداری نے بھی کی مگر ان تمام اجلاس کے نتائج بے ثمر ہی رہے کیونکہ امن و امان کیلئے اقدامات اس لئے موثر نہ ہوسکے کہ سیاسی مصلحتیں آڑے آتی رہیں۔ دونوں حکومتی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری اور رہزنی وغیرہ کے الزامات کا سلسلہ بھی اس تمام مدت میں جاری رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ الزامات ان کے سیاسی مخالفین نے ہی نہیں لگائے بلکہ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے لیڈروں نے بھی ایک دوسرے پر لگائے ان الزامات پر دونوں جانب سے ایک دوسرے کیخلاف احتجاج بھی کیا گیا وفاقی وزیروزارت داخلہ کی جانب سے سندھ حکومت کو جو ایک ماہ کی وارننگ دی گئی تھی اسکی تردید کر دی گئی ہے ٹارگٹ کلنگ کے برسوں سے جاری سلسلے کو ختم کرنے کیلئے یہ بہت تھوڑی مدت ہے لیکن اگر ایک ماہ کی بجائے ایک صدی کا وقت بھی دیدیا جائے تو یہ سلسلہ ختم کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اسکے عوامل میں کراچی پر سیاسی قبضہ بہت اہم ہے اسکے ساتھ ہی غیر ملکی طاقتیں ہیں جو اس ”ہوس قبضہ“ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہی ہیں اس لئے سول انتظامیہ کو فوج کے ساتھ مل کر موثر حکمت عملی بنانی ہوگی پیپلز پارٹی کی حکومت کیلئے بوجہ یہ ممکن نہیں ہے اس لئے پیپلز پارٹی کو اعتماد میں لیکر کچھ مدت کیلئے گورنرراج نافذ کرکے اندرونی و بیرونی سازشوں کا قلع قمع کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جاسکتے ہیں چاہے پھر دوبارہ اقتدار پیپلز پارٹی کو ہی سونپ دیاجائے فی الحال کوئی اور صورت نظر نہیں آ رہی یا پھر پیپلز پارٹی کی قیادت سیاسی اور ذاتی مصلحتوں کو کچھ مدت کیلئے ایک طرف رکھ دے لیکن یہ بھی ممکن نظر نہیں آرہا ۔

ای پیپر-دی نیشن