عجائب گھر میں صادقین کے فن پاروں کا حشر
لاہور کی خوبصورتی میں صرف وزیراعلیٰ پنجاب نے ہی حصہ نہیں لیا ہے بلکہ پرائیویٹ سیکٹر سے بھی بے شمار شخصیات اور ادارے ہیں جو دن رات لاہور کو خوبصورت بنانے میں اپنا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ ایسی چند نمایاں شخصیات میں صدر الدین ہشوانی کا نام بھی شامل ہے۔ ہوٹل انڈسٹری سے تعلق رکھنے والوں کا خیال تھا کہ انٹرنیشنل چین انٹر کانٹیننٹل اور ہلٹن کے لاہور سے چلنے جانے کے بعد مقامی نام رکھنے اور دیسی جنرل منیجر رکھنے سے ان دو بڑے ہوٹلوں کا بزنس متاثر ہو گا لیکن خوشی کی بات ہے کہ پاکستانی جنرل منیجرز ارشاد بی انجم اور قاسم جعفری نے ثابت کر دیا کہ وہ کسی لحاظ سے بھی گوروں سے کم نہیں ہیں۔
ایک روز پہلے پی سی ہوٹل میں صدر الدین ہشوانی نے وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کو مدعو کیا۔ دو نہیں تین بڑے مقاصد تھے۔ پہلا مقصد تھا کہ چائنیز ریسٹوران کی دیوار کے ساتھ صادقین کی بنائی ہوئی تین تصاویر کا افتتاح کیا جائے جو صادقین نے اقبال کے حوالے سے بنائی تھیں۔ دوسرا مقصد انتہائی خوبصورت اور قیمتی فانوس لگانے کا افتتاح تھا۔ ان فانوسوں کے لگنے سے ہوٹل کی خوبصورتی میں زبردست اضافہ ہو گیا ہے۔تیسرا مقصد تھا شریف برادران سے تعلقات معمول پر لانا تھا۔ ماضی میں بے نظیر کی آمد کے موقع پر بھوربن میں جو کچھ ہوا تھا اس کے بعد تعلقات میں سرد مہری آگئی تھی۔ لیکن اب شر یف برادران نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کا آغاز کر دیا اور یہ تقریب اس کی بہت خوبصورت مثال تھی۔
اب یہ الگ بات ہے کہ صادقین کے فن پارے جو یقیناً ایک قیمتی خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں انہیں شاید احتیاط سے ہشوانی نے اپنی کولیکشن میں نہیں رکھا تھا کیونکہ پہلے ہی فن پارے میں جو علامہ اقبال کے شعر ....
کھول آنکھ زمین دیکھ‘ فلک دیکھ‘ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
میں کچھ لفظوں کی سیاہی اڑ چکی ہے۔ لفظوں کی مرمت تصویر کی مرمت سے زیادہ آسان کام ہے۔ بدقسمتی سے کچھ شاہکار فن پارے لاہور آرٹس کونسل کی پرماننٹ آرٹ گیلری اور کچھ دوسرے مقامات پر مرمت طلب پڑے ہیں لیکن ان فن پاروں کی مرمت کرنے والے دستیاب نہیں ہیں۔ حالانکہ نیشنل کالج آف آرٹس کے پروفیسر آصف نے باہر جا کر یہ فن باقاعدہ سیکھا ہے اور پینٹنگز کی ”مرمت“ اب مغرب میں باقاعدہ سائنس کی شکل اختیار کر چکی ہے جس کے لئے باقاعدہ فارمولے بنائے گئے ہیں۔ صادقین کے بنائے ہوئے اس فن پارے میں تو صرف سیاہی چند لفظوں سے اڑی ہے یہ کام تو پنجاب یونیورسٹی کے ایک پروفیسر مرشد بھی کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی خطاطی صادقین کے بہت قریب ہے۔ باقی فن پاروں میں سے ایک کا عنوان ہے ....ع
دگر دانائے راز آید کہ نیاید
اور تیسری تصویر کا عنوان ہے اقبال کا یہ شعر ....ع
مہر و انجم کا محاسب ہے قلندر
صدر الدین ہشوانی اور محمد شہباز شریف نے خوبصورت تقاریر کیں۔ صادقین کے فن پاروں کا تعلق پی ٹی وی کے علامہ اقبال پر بنائے گئے ایک پراجیکٹ سے ہے جو شاید محمود ندیم نے تیار کیا تھا۔ آٹھ زبانوں میں بنائی گئی اس خوبصورت اور اپنی نوعیت کی پہلی دستاویزی فلم کے لئے صادقین نے ایک درجن کے قریب فن پارے تخلیق کئے تھے جو دستاویزی فلم میں استعمال بھی کئے گئے۔ صادقین سے یاد آیا کہ محمد شہباز شریف فوری طور پر لاہور عجائب گھر کی خبر لیں کہ وہاں پر صادقین نے میوزیم کی چھت اتنی شاندار اور خوبصورت مصور کی تھی کہ دنیا سے صادقین کے مداح اس چھت کو دیکھنے آتے تھے لیکن لاہور میوزیم کی نااہل انتظامیہ نے صادقین کی شاہکار چھت کو اتار کر سٹور میں رکھ دیا ہے اور اس کے بارے میں مزید کوئی فیصلہ نہیں کیا جا رہا جس کی وجہ سے لاہور کے تمام بڑے مصور ڈاکٹر اعجاز‘ سعید اختر سمیت سراپا احتجاج ہیں کہ صادقین کا اتنا بڑا شاہکار فن پارہ یوں برباد کیا جا رہا ہے۔