• news

نئے لوگوں کو بھی موقع دیں

کچھ عرصہ سے یہ خبریں چھپ رہی ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا دورہ پاکستان جو جون کے آخری ہفتہ میں متوقع تھا‘ وہ دورہ م¶خر کردیا گیا ہے۔ اب قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ جان کیری اس لئے پاکستان کا دورہ نہیں کر رہے کہ پاکستان میں کوئی وزیر خارجہ نہیں ہے۔ جس کے ساتھ ان کے مذاکرات ہوں۔ وہ امور خارجہ کے لئے وزیراعظم کے معاون خصوصی یا مشیر طارق ناطمی سے ملنے سے گریزاں ہیں۔ ایک یا دو پاکستان اخبارات میں یہ رپورٹیں شائع ہو چکی ہیں کہ وزیراعظم کے سیکیورٹی اور خارجہ امور کے مشیر جناب سرتاج عزیز اور معاون خصوصی طارق ناطمی کی آپس میں نہیں بن رہی‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لئے یہ صورت حال یقیناً پریشان کن ہو گی۔ وزارت خارجہ ملک کی ایک کلیدی وزارت ہے‘ اس مرحلے پر جب پاکستان میں نئی حکومت کی تشکیل ہوئی ہے خارجہ پالیسی کے حوالے سے کئی اہم امور اسے نمٹانے ہیں۔ ڈرون حملوں کے خاتمے‘ طالبان سے مذاکرات اور 2014ءمیں امریکہ اور نیٹو کی فوجوں کے افغانستان سے انخلاءکے بعد جو صورت حال ابھرے گی اس بارے میں پالیسی فیصلے کرنا اور وزیراعظم کو مشورے دینا وزارت خارجہ کا کام ہے وزارت خارجہ کا اگر اپنا ہا¶س آرڈر میں نہیں ہے تو وہ کیا کرے گی۔
موجودہ حکومت بعض ناقدین کہتے ہیں کہ اس حکومت کے پاس خارجہ امور کا مناسب ادراک رکھنے والا کوئی منتخب رکن نہیں ہے۔ کابینہ کی تشکیل سے پہلے وزارت خارجہ کے قلمدان کے لئے احسن اقبال اور چوہدری نثار علی خان کا نام لیا جا رہا تھا۔ انہی دنوں میری احسن اقبال سے ایوان صدر میں ایک سرسری ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھال رہے ہیں تو احسن اقبال نے بتایا میری وزارت خارجہ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے میں نے اپنے اپنے حلقے پر توجہ دینی ہے‘ میں ایسی وزارت کو ترجیح دوں گا جس کے ذریعہ ملک کی ترقی کے لئے کوئی کام کیا جاسکے۔ چوہدری نثار علی خان بھی بڑے زیرک آدمی ہیں انہیں پتہ تھا کہ وزیر خارجہ داخلی معاملات اور اپنے ووٹروں سے دور ہو جاتا ہے اس کا زیادہ عرصہ بیرونی دوروں پریا غیر ملکی مہمانوں کا استقبال کرنے اور ان سے بات چیت پر صرف ہو جاتا ہے۔ اس لئے زیادہ تر سیاستدان خارجہ امورمیں دلچپسی نہیں رکھتے۔
یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جانی چاہئے کہ پاکستان کے کامیاب وزرائے خارجہ سیاستدان ہی تھے‘ ذوالفقار علی بھٹو ایک مثال ہیں۔ آغا شاہی‘ صاحبزادہ یعقوب علی خان‘ وزیر مملکت برائے امور خارجہ انعام الحق روایتی بیوروکریٹس کی طرح خارجہ پالیسی چلاتے رہے۔ یہ بیورو کریٹ وزرائے خارجہ فوجی حکومتوں کے وزرائے خارجہ تھے۔ خورشید محمود قصوری‘ شاہ محمود قریشی‘ حنا ربانی کھر سیاستدان تھے۔ انہوں نے اپنی اپنی حکومتوں کی پالیسی کے مطابق خارجہ امور احسن طریقے سے نمٹائے۔
بات ہو رہی تھی موجودہ حکومت کے وزیر خارجہ کی۔ حکومت کو کسی نہ کسی کو وزیر خارجہ مقررکرنا پڑے گا۔ اس کے بغیرکام نہیں چلے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیوں کے پاس امور خارجہ‘ وزارت خزانہ‘ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارتیں چلانے کے لئے مناسب پس منظررکھنے والے سیاست دانوں کا فقدان ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سیاستدان کے لئے کسی شعبہ کا ماہرہونا یا ٹیکنو کریٹ ہونا ضروری نہیں لیکن جو وزارت اسے سونپی جائے اس کی بھی مبادیات سے واقف ہونا ضروری ہے۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان جماعتوں نے نیا خون شامل نہیں کیا۔ اس دور میں جو کہ سپیشلائزیشن کا دور ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ایسے افراد کو پارٹی میں شامل کرکے انکی حوصلہ افزائی کرنا چاہئے جو مختلف شعبوں میں مہارت رکھتے ہوں مسلم لیگ (ن) کے پاس تو اسحاق ڈار ہیں جو وزارت خزانہ چلا رہے ہیں لیکن پیپلزپارٹی کو تو وزارت خزانہ چلانے کے لئے ہمیشہ عالمی بینک یا دوسرے بینکوں سے بینکاروں کی خدمات لینا پڑی۔ بےنظیر بھٹو کے دور میں ایک ٹیکنوکریٹ وی اے جعفری وزارت خزانہ چلاتے رہے۔ مخدوم شہاب الدین کو بھی وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا گیا لیکن وہ کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکے۔
سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے کہ ان کے پاس اس دور میں حکومت چلانے کے لئے مناسب بیک گرا¶نڈ رکھنے والے افراد کا فقدان کیوں ہے؟ شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے نوجوان اور باصلاحیت پڑھے لکھے سیاست دانوں کے لئے اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ انہیں ان دروازوں کو کھول کر ”ٹیلنٹ“ کو اپنی پارٹیوں میں جگہ دینی چاہیئے۔ مسلم لیگ (ن) میں گزشتہ ایک دہائی میں خرم دستگیر وہ نوجوان ہیں جنہوں نے امریکہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پارٹی میں اپنی جگہ بنائی اور انہیں ایک پڑھا لکھا نوجوان سیاست دان سمجھا جاتا ہے ممکن ہے کچھ اور بھی ایسے نوجوان پارٹی میں ہوں۔ اکثریت پرانے سیاست دانوں کی ہے مسلم لیگ (ن) کے پاس قانون وزارت کے لئے کوئی موزوں شخص نہیں تھا اس لئے یہ وزارت زاہد حامد کو دی گئی جن کا تعلق مسلم لیگ (ق) سے رہا ہے ان کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہونے کے بعد قانون کی وزارت ان سے لی گئی ہے ۔ ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کو نیا ٹیلنٹ تلاش کرکے اسے بھی شامل کرنا چاہئے۔

ای پیپر-دی نیشن