• news

آزاد عدلیہ....حکومتی پانچ سال پورے کرائے گی!

مسلم لیگ(ن) کی حکومت قائم ہو چکی ہے، یہ بات اب کوئی نئی خبر نہیں رہی مگر یہ بات ضرور نئی ہے کہ آزاد عدلیہ تاحال اپنے پورے جوبن پر ہے۔ قومی اسمبلی میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے وفاقی بجٹ پیش کیا، جس پر مختلف آرائ، ردعمل سامنے آیا۔ ایک تگڑا ردعمل تھا کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کا تیار کردہ ہے۔ اس تگڑے ردعمل کو بہت سارے حلقوں کی طرح میں بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا مگر بجٹ کے بعد وزیرخزانہ کی طرف سے کہنا کہ پرانے قرضے اتارنے کے لئے نئے قرضے لینے پڑیں گے، اس نے بہت سارے ابہام پیدا کر دیئے اور اب جبکہ آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت کے مذاکرات ہو چکے ہیں تو اس شبے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آزاد عدلیہ کے بارے میں پیپلزپارٹی کی طرف سے مختلف افواہیں اور قیاس آرائیوں کو گذشتہ پانچ سالوں تک مسلسل ہوا دی جاتی رہی، کہا جاتا رہا کہ آزاد عدلیہ صرف پیپلزپارٹی کو ٹارگٹ کرتی ہے اور بالخصوص مسلم لیگ(ن) کو نظرانداز کیا جاتا ہے لیکن آزاد عدلیہ زندہ باد! مسلم لیگ(ن) کی حکومت قائم ہوئی اور انہوںنے وفاقی بجٹ پیش کرنے کے بعد پہلا کام اس بجٹ کی منظوری اور فنانس بل کی منظوری سے قبل بڑھائے گئے ایک فیصد جی ایس ٹی کی وصولی شروع کر دی، جس کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔ اس جی ایس ٹی کو کالعدم قرار دینے سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ حکومت کو عبوری ٹیکس لگانے کی اجازت دی گئی تو عوام کا پارلیمنٹ سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ انہوں نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ آرٹیکل 9 کے تحت کسی کا استحصال نہیں ہونے دیں گے۔ جی ایس ٹی 16فیصد سے زیادہ وصول نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں مسلم لیگ(ن) کی موجودہ حکومت جو انتخابات کے دنوں میں نوجوانوں اور عوام کے دکھ درد کا سہارا لے کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچی ہے وہ ایسے چور اچکوں اور لٹیروں کو اپنے قانونی حصار میں نہیں لا سکتی کیوں اسمبلیوں میں بیٹھے آج بھی لینڈ ریفارمز کے باوجود ہزاروں مربعوں کے مالک جاگیرداروں پر کوئی بھی صوبائی اسمبلی زرعی ٹیکس لگانے کی جرات نہیں کرتی۔ جو زرعی ٹیکس موجود ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے کے مصداق بھی نہیں۔ یہ مذاق کب سے جاری ہے اور آئندہ بھی اسے جاری رکھنے کی نوید حالیہ وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کے بجٹ میں سنائی گئی ہے۔ اگر عوام پر ٹیکسوں کا اضافی بوجھ ڈال کر اشیاءخوردونوش تک ان کی پہنچ سے باہر کرنی ہے، پٹرول پر بھی جی ایس ٹی نافذ کرنا ہے تو پھر عوامی حکومت کا اس عوام کو کیا فائدہ جو بھاری تعداد میں اٹھارہ فروری کو اپنے ووٹ کی طاقت استعمال کرنے کے لئے باہر نکلی۔ زرداری حکمرانوں کے بجٹ اور موجودہ بجٹ میں کیا فرق ہے۔ سابقہ حکومت بھی آئی ایم ایف کے دروازے پر کٹورا لے کر کھڑی تھی اور موجودہ حکومت نے بھی آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دے کر خالی کشکول کو بھرنے کا عوام کو نعرہ سنایا ہے۔ اس سے زیادہ شرمندگی اس باہمت اور باغیرت قوم کے لئے کیا ہو گی جس نے پاکستان کے قیام کے لئے دس لاکھ سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا اور آزادی کے بعد سے اب تک وہ چند اشراف زادے حکمرانوں، بیوروکریسی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر سسک سسک کر زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان سے ہر آنے والا حکمران جینے کا حق چھین لیتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) اگر کسی خوش فہمی میں مبتلا ہے تو وہ اسے اپنے درودیوار سے باہر نکال کر پھینک دے۔ اسے صرف اور صرف ووٹ پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری کی مخالفت میں ملے ہیں۔ لوگ سابقہ حکمرانوں سے سخت بیزار تھے کہ ان سے جینے کا حق چھینا جارہا تھا۔ سابقہ حکومت اپنے آخری لمحوں تک بحران ورثے میں ملے ہیں کا مرثیہ الاپتی رہی۔ موجودہ حکمران بھی یہی مرثیہ الاپ چکے ہیں۔ اس مرثیے کو قوم کو سنانے اور مصلحت پسندی کا شکار ہو کر تکنیکی جواز پیش کرتے ہوئے لفظوں کا گورکھ دھندا کھیل کھیلنے کی بجائے حقیقی طور پر میدان عمل میں نکلنا موجودہ حکمرانوں کا اصل امتحان ہے۔ وفاقی بجٹ کے زخم صنعتی، تجارتی اور عوامی حلقے تاحال سیک رہے ہیں۔ خدا بھلا کرے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس آف پاکستان کا جنہوں نے جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافے کی وصولی کو بجٹ کی منظوری سے قبل کالعدم قرار دے دیا ہے۔ موجودہ حکمران فوری طور پر اپنا قبلہ درست کریں۔ انہوں نے اقتدار کا سفر ابھی شروع کیا ہے وہ صرف میڈیا کے ذریعے حقائق بتا¶ کھیل کھیل رہے ہیں۔ انہیں فوری طور پر عمل بنا¶ کھیل شروع کر دینا چاہیے۔ وگرنہ وہ یاد رکھیں کہ آزاد عدلیہ کا پرچم سربلند ہے اور وہ جمہوریت پر زچ نہیں آنے دے گی۔ حکومت کو آزاد عدلیہ کے سائے میں پانچ سال مکمل کرنے پڑیں گے اور اگر اس دوران ہینکی پھینکی کی گئی تو پھر عوام نے آئندہ پانچ سالوں کے بعد جو حشر کرنا ہے اس کا اندازہ ایوان صدر میں بیٹھے اس شخص کی جماعت سے لگایا جا سکتا ہے جس کی آج وفاق میں اپوزیشن بھی محض برائے نام ہے۔

ای پیپر-دی نیشن