مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ چلانے سے کوئی پنڈورا بکس نہیں کھلے گا: اعتزاز احسن
لاہور (وقائع نگار خصوصی) وفاقی حکومت کی طرف سے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے حوالے سے داخل کردہ جواب پر وکلا نے مختلف آراءکا اظہار کیا ہے۔ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر چودھری اعتزاز احسن نے کہا کہ پرویز مشرف کا فیئر ٹرائل ہونا چاہئے۔ اگرچہ وفاقی حکومت نے غداری کا مقدمہ چلانے کی بات کی ہے مگر وزیراعظم کو پتہ ہونا چاہئے کہ اس مقدمے میں پرویز مشرف کے علاوہ چند فوجی اور چند سویلین بھی ہوں گے۔ پرویز مشرف پر الزامات اتنے سنگین ہیں کہ آئین توڑنے، حکومت کو فارغ کرنے، ججوں کو بچوں سمیت قید کرنے کے الزامات میں ضرور مقدمہ چلنا چاہئے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ ضرور چلنا چاہئے اس سے کوئی پنڈورا بکس نہیں کھلے گا ¾ اعلیٰ عدلیہ کے فاضل ججوں کو کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دینے سے گریز کرنا چاہئے ¾ جج نہیں فیصلے بولنے چاہئیں۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ پرویز مشرف نے اپنے طور پر ملک میں ایک عبوری آئین چلایا، انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت کئی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو بچوں سمیت پانچ ماہ تک نظر بند رکھا، غیرآئینی اقدامات پر ان کے خلاف مقدمہ ضرور چلنا چاہئے اس سے مستقبل میں کسی بھی طالع آزما کو روکنے میں مدد ملے گی تاہم انہیں اپنا موقف پیش کرنے کا مکمل موقع ملنا چاہئے۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اے کے ڈوگر نے کہا کہ دستور پاکستان تمام مروجہ قوانین پر حاوی ہے اور دستور پاکستان کا آرٹیکل 6یہ کہتا ہے کہ دستور توڑنے یا ایسی کوشش کرنے والے شخص پر ہائی ٹریژن ایکٹ کے تحت غداری کا مقدمہ چلے گا جس کی سزا موت یا عمر قید ہے۔ممتاز ماہر قانون اور سابق سینیٹر ایس ایم ظفر کا کہنا ہے کہ سابق صدر جنرل مشرف آرٹیکل (6) کے تحت ٹرائل پیچیدہ اور مشکل ہوگا۔گزشتہ رات نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے ایس ایم ظفر نے کہا کہ اس ٹرائل پر ردعمل بھی ہوگا۔ ان سے پوچھا گیا مشرف کے وکلاءکا م¶قف یہ ہے کہ اگر جنرل مشرف کا آرٹیکل (6) کے تحت ٹرائل ہوا تو پھر اس کی لپیٹ میں وہ لوگ بھی آئیں گے جنہوں نے جنرل مشرف کو آئین کو معطل کرنے میں ساتھ دیا تھا تو ایس ایم ظفر نے کہا کہ بادی النظر میں مشرف کے وکلاءدرست کہتے ہیں۔ مشرف کے 12اکتوبر1999ءکے ٹیک اوور کو تو پارلیمنٹ نے قانونی تحفظ دیا ہوا ہے وہ ابھی تک ختم نہیں ہوا البتہ 3 نومبر کو جنرل (ر) مشرف نے جو اقدامات کئے تھے وہ اس وقت عدالت میں زیر غور ہیں۔ ایس ایم ظفر نے کہا سپریم کورٹ کے ججوں کی آبزرویشن سے متاثر ہوکر پرویز مشرف کے ٹرائل کا فیصلہ درست نہیں۔ وفاقی کابینہ میں تمام معاملات کا تفصیل سے تجزیہ کرتے وقت تمام سٹیک ہولڈرز کی نمائندگی ہونی چاہئے تھی۔ مقدمہ چلانے سے کئی قسم کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں جو قانونی اور سیاسی ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سینیٹر سید ظفر علی شاہ نے کہا کہ مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان بروقت اور عوام کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے پوری پارلیمنٹ کو ساتھ لیا ہے یہی وجہ ہے آج پارلیمنٹ ان کی پشت پر کھڑی ہے۔ جنرل مشرف کے خلاف کارروائی غدار کی بناءپر نہیں مشرف کے قومی جرم کی وجہ سے کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کے خلاف مقدمہ سے ملک کے سیاسی نظام پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔اس کے بعد کوئی شخص یا ادارے کا سربراہ آئین شکنی کی جرات نہیں کرے گا۔