آئین کو معطل کرنا غداری ہے‘ نوازشریف.... مشرف پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ
مشرف کے ساتھ دوسرے آمروں کا بھی احتساب کیا جائے
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جرم ثابت ہونے پر مجرم کو سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ پرویز مشرف کا آئین کو معطل کرنا غداری ہے‘ پرویز مشرف کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہو گا۔ آرٹیکل 6 کے تحت پرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ چلائیں گے۔ ہمارے زیادہ تر مسائل آئین سے انحراف کا نتیجہ ہیں‘ مشرف نے دو دفعہ آئین کو توڑا جس میں مشرف کا ذاتی مفاد شامل تھا۔ 3 نومبر کے آئینی اقدامات کے تحت ججز کو کام سے روکا گیا اور انہیں نظربند کیا گیا۔ پرویز مشرف کا آئین کو معطل کرنا غداری اور بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پرویز مشرف کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے۔ دریں اثناءپرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ چلانے کیلئے درخواست کی سماعت ہوئی۔ اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کا موقف سپریم کورٹ میں پیش کردیا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم نے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف لیا ہے۔ آرٹیکل 6 کے مرتکب شخص کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائیگا۔ پارلیمنٹ کی قرارداد بھی موجود ہے۔ حکومت قانون کی حکمرانی کے اعلیٰ معیار پر یقین رکھتی ہے۔ مشاورت کے عمل کیلئے پولیٹیکل سپیس دی جائے۔ جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیئے اس سے زیادہ اچھا بیان تو نگران حکومت کا تھا۔ قانون میں درج معاملات پر سیاسی مشاورت کی ضرورت نہیں۔ جسٹس جواد نے کہا پانچ سال سے زائد وقت گزر چکا ہے‘ وفاقی حکومت نے آج تک کیا کیا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزیراعظم اس عمل میں انصاف کے اعلیٰ ترین معیار کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں‘ آزادانہ تحقیقات کیلئے آزاد پراسیکیوشن اور پراسیکیوشن ایجنسی کا ہونا ضروری ہے۔
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ 30 دن کا وقت دیں بتائیں گے کہ کس طرح قانونی مشینری حرکت میں آئی۔ جسٹس جواد نے جواب دیا کہ اس کیلئے 30 دن نہیں لگتے آپ کو جمعرات تک تین دن کا وقت دیتے ہیں۔ عدالت کو بتائیں کہ حکومت نے کیا کیا ہے۔
پاکستان میں پہلی فوجی آمریت جنرل ایوب خان نے مسلط کی‘ اب تک آخری مہم جو جنرل مشرف تھے‘ جن کے اقتدار کا سورج 18 اگست 2008ءکو ڈوب گیا۔ اس روز مملکت خداداد کو معرض وجود میں آئے 61 برس ہوئے تھے۔ ان 61 سال میں ملک پر 33 سال یعنی نصف سے بھی زیادہ عرصہ قائداعظم کے جمہوری پاکستان پر فوجی آمریت نے اپنے پنجے جمائے رکھے۔ اگر ابن الوقت سیاست دان پہلے آمر کا ساتھ نہ دیتے اور عدلیہ ہائی ٹریژن ایکٹ کے تحت کڑا احتساب کرتی تو دوسرے آمر کو طالع آزمائی کی جرا¿ت نہ ہوتی‘ چہ جائیکہ قوم کو چار مہم جو بھگتنا پڑے اور کسی بھی آمریت کے خدشات بدستور موجود ہیں۔ مزید آمریتوں کے خدشات اور خطرات کو صرف آمروں اور انکے حواریوں کا کڑا احساب کرکے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے‘ یہ کسی نہ کسی طالع آزما کے ساتھ تو ہونا ہی تھا۔ مشرف سے قبل کے آمر کا احتساب کرلیا جاتا تو مشرف آمریت کی نوبت نہ آتی۔ اب مشرف کے آئین شکنی کے اقدام سے صرف نظر کرلیا گیا تو آرٹیکل 6 کا پھندا کسی اور کے گلے میں پڑیگا لیکن نہ جانے اس وقت تک قوم کے مزید کتنے سال ضائع ہو جائیں؟
یاد رہے 31 جولائی 2009ءکو پرویز مشرف کو عدالت نے غداری کا مرتکب قرار دیا تھا۔ اب نواز شریف اور انکی حکومت نے جنرل پرویز مشرف کیخلاف بڑے عزم اور ارادے سے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کی بڑی سطح پر تحسین کی جا رہی ہے تاہم دوسری رائے کا اظہار بھی ہو رہا ہے۔ پختونخواہ ملی اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ہر ادارہ اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرے‘ آج ایوان صحیح سمت میں جا رہا ہے‘ قومی اسمبلی میں وزیراعظم کی طرف سے پرویز مشرف کیخلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کے اعلان کے بعد اپنے خطاب میں محمود خان اچکزئی نے کہا کہ نواز شریف کو نئے دور کا آغاز کرنے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی پر غداری کا مقدمہ چلے گا۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ جن آمروں نے آئین کو کاغذ کا ٹکڑا قرار دیا‘ انہیں عوام مسترد کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں پرویز مشرف کیخلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کے اعلان کے بعد اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے سید خورشید شاہ نے کہا کہ قومی اداروں سے آمروں کی تصاویر ہٹا دینی چاہئیں.... پیپلز پارٹی پانچ سال حکومت میں رہی‘ اس نے جنرل مشرف کیخلاف کسی بھی کارروائی سے گریز کیا۔ پیپلز پارٹی نے صدر مشرف کے مواخذے کا اعلان کیا‘ وہ مستعفی ہوگئے تو ان کو پروٹوکول دے کر ایوان صدر سے رخصت کیا گیا۔ خورشید شاہ قومی اداروں سے آمروں کی تصویر اتارنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اپنی حکومت کے دوران ایسا کرتے تو بہتر تھا۔ بہرحال اب بھی اس پر عمل ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ تحریک انصاف وزیراعظم کے ہر آئینی اقدام کی حمایت کریگی۔ حکومت نے پرویز مشرف کیخلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے‘ جمہوریت کو مضبوط کرنے میں حکومت کا ساتھ دینگے۔ پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے کہاکہ پہلے تو پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ بنتا ہی نہیں ہے کیونکہ 3 نومبر کے اقدامات ملکی بہتری کیلئے کئے گئے تھے اور اگر مقدمہ بنتا ہے تو وہ تمام افراد جو پرویز مشرف کے ساتھ شامل تھے‘ وہ بھی اسی مقدمہ میں آتے ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے تحریری بیان کا میں پہلا حصہ آئینی شاعری پر مبنی ہے۔ تحریری بیان میں حکومت نے مقدمہ چلانے کیلئے مشاورت کاکہا ہے‘ مشرف کیخلاف مقدمہ چلانے سے پینڈورا بکس کھل جائیگا۔
جنرل مشرف کو آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کٹہرے میں لائے جانے پر کچھ حلقے فوج کے ردعمل کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ انکی تشویش بے جا ہے‘ جمہوری حکومتوں پر شب خون چند جرنیلوں نے مارا اور وہی اقتدار میں آکر اسکے ثمرات سمیٹتے رہے۔ احتساب بھی انہی کا ہو گا۔ موجودہ عسکری قیادت جمہوریت کی حامی اور اسکے کردار کے بدولت ہی جمہوریت پٹڑی پر چڑھی اور گزشتہ حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ یقینا وہ حکومت کے ہر جمہوری اقدام کا احترام کریگی۔
انسانی قتل کی طرح جمہوریت کا بھی کم از کم تین مرتبہ قتل ہوا۔ قتل معاف ہونے کے باوجود قتل کے وقوعہ سے انکار ممکن نہیں۔ عدلیہ اور پارلیمنٹ نے فوجی آمریتوں کو جائز ضرور قرار دیا‘ مگر جمہوریت کے قتل کی حقیقت اپنی جگہ موجود ہے۔ جرنیلوں کو مارشل لاﺅں پر اکسانے والے موجود ہیں‘ ان سے بڑے مجرم جرنیلوں کا ساتھ دینے والے ہیں۔ جنرل مشرف پر 3 نومبر کو ایمرجنسی پلس کے نفاذ پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے جبکہ 12 اکتوبر 1999ءکو ایک جمہوری حکومت پر شب خون مارنا ان کا بہت بڑا جرم ہے۔ اس کو عدلیہ اور پارلیمنٹ نے معاف کر دیا لیکن اس آئین شکنی کے اقدام سے انکار ممکن نہیں۔ میاں نوازشریف کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت اور تمام پارٹیاں مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کے حوالے سے ساتھ دے رہی ہیں۔ آمریت کے ہمیشہ کیلئے دروازے بند کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مشرف اور ان کا ساتھ دینے والوں کا بھی احتساب کیا جائے۔ مشرف کے جمہوریت پر شب خون مارنے کے اقدام کو توثیق دینے کیلئے پارلیمنٹ نے سترہویں ترمیم منظور کی تھی۔ اب جبکہ پوری پارلیمنٹ مشرف کو غداری کی سزا دینے پر آمادہ ہے تو سترہویں ترمیم میں مزید ترمیم کرکے مشرف کے آئین شکنی کے اقدام کی توثیق ختم کردی جائے۔ بہتر ہے کہ احتسابمشرف کے بعد پہلے آمر سے شروع کیا جائے تاکہ آئین توڑنے والے سب آمر اسکی لپیٹ میں آجائیں۔