منگل‘ 15 شعبان المعظم1434ھ ‘ 25 جون2013
نجم سیٹھی کرکٹ بورڈ کے قائم مقام چیئرمین مقرر !
جناب پھر وینا ملک کو وزیر مذہبی امور بنا دیں۔ اگر سیٹھی صاحب کرکٹ بورڈ چلا سکتے ہیں تو وینا ملک وزارتِ مذہبی امور بھی چلا لیں گی۔ چڑیا والی سرکار نگران وزیر اعلیٰ کیا بنے اب سرکاری مال انکے ہونٹوں سے پیچھے ہی نہیں ہٹ رہا۔ جگنو کی روشنی میں چل کر نگرانی تو انہوں نے خوب کی، اب شاید جگنو کرکٹ میں ان کی مدد نہ کر سکے کیونکہ کرکٹ کے جواریوں نے سب چراغوں کو گُل کر چھوڑا ہے۔ نجم اور جگنو کی روشنی شاید کرکٹ گراﺅنڈوں میں چھایا اندھیرا ختم نہ کر سکے۔ نجم سیٹھی پہلی کلاس میں اپنی ٹیم کے اوپننگ بیٹسمین تھے اس حوالے سے آپ انکی کرکٹ سے آگاہی کا اندازہ لگا لیں۔ وزیراعظم اور چیئرمین پی سی بی میں کرکٹ کا شغف قدرے مشترک ہے۔ نجم سیٹھی نے وقت نیوز کے پروگرام گیم بیٹ میں اینکر حافظ عمران سے گرچہ اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ صرف قائم مقام چیئرمین بنے ہیں۔ جناب یہ چیئرمینی چل کر نہیں آئی بلکہ امریکہ میں بطور سفیر تقرری روکنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔ اسے کہتے ہیں احسان کا احسان اور کوڑیوں کے دام ۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
سندھ کابینہ کا صوبے میں امن و امان پر اے پی سی بلانے کا فیصلہ ! سندھ حکومت پچھلے پانچ سال کیا کرتی رہی، تب درجن بھر افراد کو دن کی روشنی میں ابدی نیند سُلا دیا جاتا رہا لیکن سندھ حکومت تماش بینوں کی طرح بیٹھی رہی، جناب اے پی سی بلائیں لیکن اسکے فیصلے پر عمل بھی تو کریں، عمل کے وقت آپ مصالحتی دستر خوان بچھا لیتے ہیں۔ کراچی میں قتل و غارت آج سے نہیں بلکہ دائمی مرض کی طرح یہ پرانی وبا ہے اسے جڑ سے اکھاڑنے کیلئے آپ کو تمام مصلحتوں کو بھی جڑ سے اکھاڑ کر دفن کرنا ہو گا۔ کراچی میں روٹی مہنگی جبکہ موت سستی ہے۔ ایم کیو ایم کے ایم پی اے ساجد قریشی کو بیٹے کیساتھ دن دیہاڑے قتل کردیا گیا۔ ایسا دن کوئی نہیں ہوتا جب کراچی میں کوئی قتل نہ ہُوا ہو۔ بیرونی قوتوں سے زیادہ اپنے لوگ ہی اس قتل و غارت میں ملوث ہیں۔ سندھ حکومت میں وہی پرانے لوگ ہیں یہ پچھلے پانچ سالوں میں امن و امان قائم نہیں کر سکے۔ اب کیا کرینگے کیونکہ یہ بازو ہمارے آزمائے ہوئے ہیں۔ اے پی سی پر وقت ضیاع کرنیکی بجائے وفاق کو مدد کیلئے بلائیں تاکہ انسانی جانوں کا ضیاع رک سکے۔ کراچی کے افراد حالات کی سنگینی کے باعث ہجرت پر مجبور ہیں۔ اپنے گھروں کو چھوڑنا مشکل کام ہوتا ہے لیکن کراچی والے یوں گویا ہیں ....
ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
تو خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر
جو ٹوٹی ہوئی جھونپڑی بے ضرر ہو
بھلی اسی محل سے جہاں کچھ خطر ہو
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
مقبوضبہ کشمیر کے نواحی علاقے بیروہ میں اجتماعی قبروں کی موجودگی کا انکشاف !
بھارت ماتا کا یہی جمہوری چہرہ ہے؟ فوجیوں نے 150 نعشیں دفنائیں جن میں 6 سر کٹی، 20 جھلسی ہوئی تھیں۔ بھارت نے اپنے خونخوار چہرے پر ماسک پہنا ہوا ہے اور پوری دنیا میں جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے۔ ہزاروں مسلمانوں کا قاتل نیدر مودی کہتا ہے کہ کشمیریوں کی خواہشات کا احترام کریں گے۔ جناب انکی خواہش بھارتی تسلط سے آزادی حاصل کرنا ہے، آپ انہیں آزادی دیدیں، اپنے خونخوار فوجیوں کو وہاں سے واپس بلائیں۔ پوری دنیا کے سامنے بھارتیوں کا خونیں چہرہ واضح ہو چکا ہے لیکن اقوام متحدہ سمیت کوئی بھی ملک بھارت کو لگام ڈالنے والا نہیں۔ کشمیریوں کی کئی نسلیں جوان ہو چکی ہیں لیکن انہیں ابھی تک آزاد ہَواو¿ں میں سانس لینا نصیب نہیں ہوا۔ بھارت آرام کی زبان نہیں سمجھے گا اس سے آزادی کو چھین کر ہی لینا ہے لہٰذا کشمیری جوان قوتِ بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے اس خونخوار بھیڑئیے کے منہ سے آزادی چھین لیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
توانائی بحران پر قابو نہ پایا تو ملک دیوالیہ ہو کر تباہ ہو جائے گا : ڈاکٹر ثمر مبارک
جناب آپ دونوں ڈاکٹر صاحبان آپس میں صلح کریں پھر ملک کا سوچیں۔ آپ اپنی اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کیلئے ڈیڑھ ڈیڑھ فٹ کی الگ الگ مسجد قائم کئے ہوئے ہیں۔ آپ کی صلح سے ملک کا بھی بھلا ہو سکتا ہے۔ آپ کسی تجربے کی بات کرتے ہیں جبکہ ڈاکٹر اے کیو خان کسی اور تجربے کی بات کرتے ہیں۔ توانائی کا بحران ضرور بے قابو ہے لیکن کیا آپکے دل بھی بے قابو ہو چکے ہیں۔ آپکی لڑائی سے ملک کا بھلا تو نہیں ہو رہا۔ آپ دونوں سائنسدان اگر مل کر بیٹھ جائیں تو شاید بجلی کچھ بہتر ہو سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوڈشیڈنگ کے باعث ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اگر آپ نے معدنیات نکالی ہوتیں تو آج وزیر خزانہ کشکول لیکر آئی ایم ایف کے دروازے پر نہ کھڑے ہوتے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
یوسف رضا گیلانی کا لاہور ائر پورٹ پر پروٹوکول نہ ملنے پر احتجاج !
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
ایک وقت تھا کہ جناب کی آمد کی خبر ملتے ہی ائر پورٹ حکام ”سلام“ کرنے کیلئے لائن میں کھڑے ہوتے تھے لیکن اب کوئی آنکھیں ملانے کیلئے بھی تیار نہیں۔ لگتا ہے گیلانی صاحب کے پاﺅں کو وزیراعظمی کی لگی مہندی ابھی ختم نہیں ہوئی؟ اب تو انہیں خود ہی ”نیواں نیواں“ ہو کر ائر پورٹ سے نکل جانا چاہیے تھا، رن وے سے ایک کلو میٹر تک انہوں نے مسافر بس میں بیٹھنا گوارا نہیں کیا، یہ ان کا بڑا پن نہیں بلکہ عوام کی توہین ہے۔ ان کو خود ہی چاہئے تھا کہ مسافروں میں بیٹھ کر ان میں گھل مل جاتے تاکہ تنقید کی گنجائش ہی نہ رہتی لیکن انہوں نے اپنی جگ ہنسائی کا سامان خود پیدا کیا ہے۔ جناب سپیشل ٹرین آپ سے چھوٹ گئی ہے عوام نے بڑی مشکل سے آپ کو وزیراعظم ہاﺅس سے نکالا اب پھر پروٹوکول کی ضد آپ کو لے ڈوبے گی۔