بلوچستان میں سکیورٹی اداروں کا رویہ جمہوریت کے لئے تباہ کن ہو گا: ہیومن رائٹس کمشن
کوئٹہ (بیورو رپورٹ + ایجنسیاں) ہیومن رائٹس کمشن کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کی بلوچستان پر جاری رپورٹ میں کہا ہے سکیورٹی فورسز اور خفیہ ایجنسیاں قانون اور آئین کے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں، بلوچستان میں امن عامہ کی صورتحال مایوس کن ہے، شہری شدید خوف زدہ ہیں، زندگی کو تحفظ حاصل نہیں۔ اے پی اے کے مطابق رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ صوبائی انسانی حقوق کمشن تشکیل دیا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے بلوچ جنگجوﺅں کو لوگوں پر حملے بند کرنے چاہئے، تمام حلقے نئی حکومت سے حالات میں تبدیلی سے متعلق پر امید ہیں، سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہریوں کی تذلیل معمول بن چکی ہے۔ آئی این پی کے مطابق انہوں نے کہا بلوچستان میں سکیورٹی اداروں کا یہی رویہ رہا تو یہ جمہوریت کے لئے بھی تباہ کن ہو گا۔ سکیورٹی پالیسی چھوڑ کر پرو پیپلز پالیسی بنانا ہو گی۔ اے پی پی کے مطابق انسانی حقوق کمشن پاکستان کی سابق چیئرپرسن عاصمہ جہانگیر نے سردار بہادر خان وویمن یونیورسٹی اور بولان میڈیکل کمپلیکس میں پیش آنے والی دہشت گردی کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا موجودہ صوبائی حکومت سے عوام کو بہت توقعات وابستہ ہیں، صوبے میں امن و امان اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر صوبائی حکومت اقدامات اٹھائے۔ یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا بلوچستان میں ماضی میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہوئیں ہم امید کرتے ہیں نئی حکومت صوبے میں انسانی حقوق کی پامالی کا نوٹس لے گی اور صوبے میں امن و امان کی بحالی کے لئے کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے بلوچ مزاحمت کاروں سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان کے عوام کی مفاد میں سیزفائز کریں تاکہ بلوچستان مسئلے کا پائیدار حل نکالا جا سکے۔ این این آئی کے مطابق انہوں نے کہا ہم نے بلوچستان کی موجودہ حالات کے پےش تفصےلی دورہ کےا۔ انہوں نے کہا سیاسی حکومت کے آنے کے باوجود پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی آج بھی لوگ سابقہ دور کی طرح لاپتہ ہو رہے ہیں ہمارے پاس اس وقت بھی کم از کم چار لوگوں کے شواہد موجود ہیں جو ان واقعات سے متاثر ہوئے اور اغوا برائے تاوان کے واقعات اس سے بالکل الگ ہیں۔ انہوں نے کہا ایچ آر سی بی کی بلوچستان کے حالات پر کافی عرصے سے نظر تھی بلوچستان میں آپریشن اور نواب اکبربگٹی کا واقعہ نہےںہو تا تو شاےد حالات اتنے خراب نہےں ہوتے جتنے آج خراب ہےں۔ انہوں نے کہا بلوچستان کے عوام پرامن ہیں اور وہ صوبے میں امن کے خواہاں ہیں جس کا واحد ثبوت حالیہ انتخابات ہیں۔ انہوں نے کہا مزاحمت کاروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سیاسی حکومت کو چلنے دیں اور کچھ وقت تک جنگ بندی کریں تاکہ سیاسی حکومت عسکری قیادت کو مزید کام کرنے سے روک سکے۔ انہوں نے کہا دھوبی، نائی اور غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کو نشانہ بنانے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا ہمیں اندازا ہے مزاحمت کاروں کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں اور انہیں اس راستے پر چلنے کیلئے مجبور کیا گیا اب ایک سیاسی ماحول کا آغاز ہو چکا ہے انہیں چاہئے سیاسی ماحول کو بہتر بنانے کیلئے آگے آئیں اور اسے پنپنے کا موقع دیں۔ انہوں نے کہا کوئٹہ اور زیارت میں پیش آنے والا واقعہ بالکل مختلف ہے اور مختلف تنظیموں نے ذمہ داری قبول کی ہے اس صورتحال میں وفاقی حکومت کو ذمہ داری کامظاہرہ کرتے ہوئے مزید اقدامات اٹھانے چاہئیں کیونکہ اس وقت بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے عسکری قیادت وفاقی اور صوبائی حکومت کو ایک میز پر متحد ہو کر بیٹھنا ہو گا تاکہ اس کا حل ممکن ہو سکے اور وفاقی حکومت صوبائی حکومت کو سپورٹ کرے تو صوبے میں جاری مسائل میں کچھ کمی واقع ہو سکتی ہے کیونکہ اس وقت بھی امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے شہری کہیں بھی محفوظ نہیں اور شہریوں کی عزت نفس کو مجروح کرنے میں سکیورٹی فورسز کوئی موقع گوانے سے گریز نہیں کر رہی، ڈیرہ بگٹی کا واقعہ سب کے سامنے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی سلامتی کے حوالے سے ایک اور پالیسی تشکیل دی جائے جو عوام کے مفاد میں ہو حکومت ہمیں ذمہ داری دینا چاہتی ہے تو ہم بلامعاوضہ انہیں تمام حالات اور واقعات سے آگاہی دے کر ان مسائل کا حل بھی بتائیں گے۔