لوگ طویل لوڈشیڈنگ سے مر رہے ہیں‘ انرجی ایمرجنسی نافذ کی جائے : چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے لوڈشیڈنگ بحران سے متعلق ازخود نوٹس مقدمہ کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے انرجی ایمرجنسی نافذ کی جائے، لوگ طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ سے مر رہے ہیں، طویل اور قلیل مدتی قاور منصوبوں پر ”فاسٹ ٹریک“ پر کام کیا جائے، بجلی کی منصفانہ تقسیم کو ممکن بنایا جائے، قوم کو نئی حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ ایم ڈی، این ٹی ڈی سی کو عدالت نے حکم دیا کہ بجلی کی تقسیم سے متعلق کشمیر اور اسلام آباد سمیت ضلع وار تفصیلی رپورٹ یکم جولائی تک عدالت میں پیش کریں۔ عدالت نے ایم ڈی شائڈو کمپنی (کے پی کے) کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پرائیویٹ لائسنس ہولڈرز کی فہرست اور پانی سے چلنے والے چھوٹے پاورز پلانٹس کی ”ویلنگ چارجز“ سے متعلق رپورٹ طلب کر لی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس اعجاز احمد چودھری اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو ایم ڈی این ٹی ڈی ضرغام اسحاق نے پیشرفت سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں سے رپورٹس منگوائی ہیں، ابھی بلوچستان اور خیبر پی کے رپورٹس آئی ہیں، ایک اپور فیڈر کو ایک گھنٹہ بند رکھا جائے تو 500 میگاواٹ بجلی کی بچت ہوتی ہے، ایک بڑے شہر کی ایک گھنٹہ لوڈشیڈنگ اور بلوچستا ن کے دور دراز علاقے کو ایک گھنٹہ لوڈشیڈنگ میں فرق ہے۔ پنجاب کو ٹوٹل بجلی کی پیداوار کا 66 فیصد مل رہا ہے، اسی طرح خیبر پی کے کو 16 فیصد، سندھ کو 12 فیصد، بلوچستان کو 6 فیصد، کشمیر کو 3 فیصد کے حساب سے بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بجلی کی کل پیداوار 12500 میگاواٹ، طلب 17500 جبری شارٹ فال 5 ہزار میگاواٹ ہے، اس حساب سے 7 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہونی چاہئے۔ ایم ڈی این ٹی ڈی ضرغام اسحاق نے کہا کہ لوڈشیڈنگ 10 گھنٹے سے زائد کی جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو پورا چارٹ بنا کر تفصیلی طور پر بریف کیا جائے۔ جو فارمولا ایم ڈی این ٹی ڈی سی بتا رہے ہیں اس حساب سے شارٹ فال 5 نہیں 8 ہزار میگاواٹ بنتا ہے۔ تمام صوبے اپنی اپنی چوریاں کنٹرول کریں۔ ضرغام اسحاق نے عدالت کو بتایا کہ حیدر آباد میں 50 فیصد فیکٹریاں چل رہی ہیں جنہوں نے اپنے تھرمل پلانٹ لگا رکھے ہیں۔ پنجاب کے 29 پاور پلانٹس کو 1100 میگاواٹ ان کی ضرورت کے مطابق دیئے جا رہے ہیں۔ پنجاب کو گیس 3 دن جبکہ باقی صوبوں کو پوری مل رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے تحت تمام عوام کے حقوق برابر ہیں چاہے وہ اربن ہوں یا دیہاتی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 300 بلین کے گردشی قرضے 30 جون تک اور باقی 60 دن تک ادا کر دیئے جائیں گے۔ حکومت انرجی پالیسی کیلئے تیزی سے کام کر رہی ہے۔ سرکلر ڈیٹ ختم کرنے کیلئے ٹریژری بانڈز کے ذریعے رقم حاصل کی جائے گی۔ حکومت نے پی ایم کے صوابدیدی اور خفیہ فنڈز ختم کر دیئے ہیں۔ خیبر پی کے اور بلوچستان میں بجلی چوری سب سے زیادہ ہے۔ یہ تو طے ہے کہ کمرشل اور گھریلو صارفین کو ہر صورت بجلی کی فرا ہمی ممکن بنانی ہے، رمضان بھی آنے والا ہے۔ خیبر پی کے کے وکیل زبیری نے عدالت کو بتایا کہ 29 پرائیویٹ پاور کمپنیوں کی جانب سے 8652 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے، 20 پراجیکٹس پر کام مختلف مراحل میں ہیں کہ پاورز پرائیویٹ کمپنیاں (PPIS) پرائیویٹ پالیسی الیکٹرک سپلائی 1994ءکے ایک ایکٹ کے تحت کام کر رہی ہیں۔ مختلف منصوبے برسوں میں مکمل ہونے ہیں، کوئی مقررہ ٹائم فریم نہیں۔ یہ تھرمل پراجیکٹ ہیں، ہائیڈل پروجیکٹس 15 ہیں جن سے 6948 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جو نہیں کی جا رہی۔ خیبر پی کے واپڈا کے وزیر خان نے بتایا کہ ایسی سائٹس موجود ہیں جہاں سے 54 ہزار میگاواٹ کی گنجائت ہے جبکہ صرف 8 ہزار میگاواٹ پیدا کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی کمیٹی کام نہیں کرتی تو لائسنس کسی اور کو دیا جائے۔ سماعت یکم جولائی تک ملتوی کر دی گئی۔