وزارت ”لوڈشیڈنگ“ کے منصب کا تقاضا؟
وزارت ”لوڈشیڈنگ“ کے منصب کا تقاضا؟
وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب نے الیکشن مہم کے دوران جہاں کئی ”دلکش“ اور ”ہوشربا“ اعلانات کئے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ وزیراعظم بننے کے بعد میں وزیراعظم ہا¶س نہیں بیٹھوں گا بلکہ عوام میں ہی رہوں گا۔ بہرحال پوری پاکستانی قوم کی طرح ہمیں بھی یہ ”خوش فہمی“ تھی کہ میاں صاحب وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے کے فوراً بعد قوم سے خطاب کرکے لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کا یا تو اعلان کریںگے یا بتائیں گے کہ اتنے عرصے میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ شاید ہماری خوش فہمی بھی ”جذباتی“ تھی اور آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ میاں صاحب کے کونسے اعلانات ”جذباتی“ اور کون سے سنجیدہ تھے۔ اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو موجودہ حکومت کو معرض وجود میں آئے تقریباً تین ہفتے ہو چکے ہیں مگر لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے بارے ہمیں ایک فیصد بھی پیش رفت نظر نہیں آئی۔ اللہ بھلا کرے نگران وزیر بجلی و پانی ڈاکٹر مصدق کا جو جاتے ہوئے ایک سچ قوم کو بتا گئے تھے اور ان کا وہ سچ بڑا ”معنی خیز“ ہے ان کا بیان تھا کہ ”مجھے سمجھ نہیں آتی کہ بجلی کا شارٹ فال صرف چار پانچ ہزار میگاواٹ کا ہے۔ لوڈشیڈنگ تو صرف نو دس گھنٹے ہونی چاہئے تھی میں حیران ہوں کہ بیس بائیس گھنٹے لوڈشیڈنگ کیوں کی جا رہی ہے؟ بہرحال ڈاکٹر مصدق صاحب جاتی عمرہ بھی تشریف لے گئے تھے۔ آج کل لوڈشیڈنگ میں عوام کو جو کچھ ”کمی“ محسوس ہو رہی ہے یہ ڈاکٹر مصدق کے ”سچ“ کی بدولت ہے۔ ورنہ موجودہ حکومت کو اس کا کریڈٹ نہیں جاتا۔ کسی بھی وزارت کا کام ادارے کی بحالی ہوتا ہے مگر ہمیں وزارت ”لوڈشیڈنگ“ کے فرائض کا ہی ابھی تک علم نہیں ہو سکا ہے۔ خواجہ آصف صاحب چوتھی بار سیاسی میدان میں اترے ہیں گویا عوام کو بیوقوف بنانے اور ”ٹرخانے“ میں کافی مہارت رکھتے ہیں۔ بات بھی ٹھہر ٹھہر کر کرنے کے عادی ہیں شاید اسی مناسبت سے وزارت ”لوڈشیڈنگ“ کا قلمدان خواجہ صاحب کو دیا گیا ہے۔ دو تین بار موصوف کے بیانات سامنے آئے ہیں ہر بار یہی فرماتے ہیں کہ ”لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کا وقت نہیں دے سکتا مگر لوڈشیڈنگ منصفانہ ہو گی اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے بارے بھی بتا دیا جائے گا“ ہم تو موصوف کے ان بیانات سے ورطہ حیرت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جن میں نہ لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کا ذکر اور صرف ”منصفانہ اور غیر اعلانیہ کا تذکرہ“ کیا کسی محکمے کے وزیر صاحب کا بس یہی کام ہے۔ یہ کام تو واپڈا کے چیئرمین صاحب بھی بخوبی سرانجام دے سکتے تھے اگر صرف یہ دو اعلان ہی کرنے تھے تو محلے کے مولوی صاحب کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی تھیں۔ موصوف کے یہ اعلان بھی ”جذباتی“ دکھائی دیتے ہیں۔ منصفانہ لوڈشیڈنگ تو تب ہو گی جب ایوان صدر‘ ایوان وزیراعظم اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھی کی جائے گی۔ اسلام میں کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ ہر شہری کے برابر حقوق ہیں۔ ادھر شہباز شریف بھی کہتے ہیں کہ جنگی بنیادوں پر لوڈشیڈنگ کا حل نکالا جائے گا۔ کب اور کون نکالے گا؟ شہباز شریف کے بیانات کے بارے اب نواز شریف صاحب سے رہنمائی لینی ہو گی کہ جنگی بنیادوں والا بیان بھی ”جذباتی“ تو نہیں ہے۔ گذشتہ دور میں تو شہباز شریف کو ”شکوہ“ تھا کہ وفاقی حکومت پنجاب کو کم بجلی فراہم کر رہی ہے لہٰذا میاں صاحب مینار پاکستان کے سائے تلے بیٹھ کر ہاتھ والے پنکھے ہلا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے اور ”عوامی نمائندہ“ ہونے کا ثبوت مہیا کرتے اب تو شہباز شریف صاحب نے بھی وفاقی حکومت کی حمایت میں ہی بیان جاری کرنا ہوں گے یہ ان کی مجبوری بھی ہے اور فرض بھی.... ع
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تولازم ہے شعور
آپ ٹی وی کے سامنے بیٹھ جائیے آپ کو علم ہو جائے گا کہ بالکل گذشتہ حکومت کی طرح لوڈشیڈنگ کے بارے اجلاس جاری و ساری ہیں۔ بعض کی خود میاں صاحب صدارت بھی فرما رہے ہوتے ہیں۔ یہ وہی اجلاس ہیں جو گذشتہ پانچ سال ہوتے رہے ہیں مگر ابھی تک ایک فیصد بھی عملی طور پر کوئی ایسا لائحہ عمل سامنے نہیں آسکا جس سے معلوم ہو کہ لوڈشیڈنگ کب تک ختم ہو جائے گی۔ حالانکہ خواجہ صاحب صرف ان دو اعلانات کی مد میں ”منصفانہ ہو گی اور غیر اعلانیہ نہیں ہو گی“ ان تین ہفتوں میں اربوں روپے وزارت خزانہ سے جاری بھی کرا چکے ہیں مگر تاحال ایک فیصد بھی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اگر وزیر بجلی اس خوش فہمی میں مبتلا ہوں کہ اسی طرح ”ڈرامے بازی“ سے پانچ سال پورے ہو جائیں گے تو ان کی یہ سوچ ”جذباتی“ ہو گی۔ قوم باشعور اور سمجھ دار ہو چکی ہے۔ ایک سال میں ہی سب کچھ سامنے آجائے گا۔ بہرحال خواجہ صاحب نے سیاست کے میدان میں ہی بال سفید کئے ہیں۔ ابھی سے فیصلہ کر لیں کہ اگر صرف ”غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ“ نہ کرنے کے لئے یہ وزارت سنبھالی ہے تو یہ کام تو واپڈا کے ایس ڈی او صاحب بھی کر سکتے ہیں۔بہتر ہے کہ خواجہ وزارت پر ”بوجھ“ بننے سے گریز کریں۔ موجودہ حکومت نے لوڈشیڈنگ سے نجات دلانے کے وعدوں سے عوام سے ووٹ لئے ہیں اب سنجیدگی سے یہ کام کرنا ہو گا۔ اب بہانے بنانے اور ادھر ادھر کی مارنے کی بجائے اس لعنت سے قوم کو نجات دلانا ہو گی ورنہ قوم بھی ”جذباتی“ ہونے میں دیر نہیں لگایا کرتی۔